ہر تجربہ شکار فریب نظر ہوا

ہر تجربہ شکار فریب نظر ہوا
کن ظلمتوں پہ آہ گمان سحر ہوا


کس کس ادا سے آج کوئی جلوہ گر ہوا
آیا نظر کو ہوش تو دل بے خبر ہوا


اے رہنما جسارت رہزن کی داد دے
جو حادثہ ہوا وہ سر رہ گزر ہوا


ہے آفریں جو ہنستے نہیں ہیں تمام عمر
ہم سے تو ایک دن بھی نہ غم کا بسر ہوا


پہلے تو عرض غم کی اجازت نہ دیں گے وہ
وقفہ بہت قلیل سا ہوگا اگر ہوا


رکھی تھی جس پہ تیرا نشیمن بہار میں
کیا التفات برق اسی شاخ پر ہوا


یہ پوچھنا عبث ہے دل خوش خیال سے
آباد ہم ہوئے ہیں کہ برباد گھر ہوا