شکوۂ غم بھی گیا طاقت گویائی بھی

شکوۂ غم بھی گیا طاقت گویائی بھی
بھول جاتا ہوں کوئی بات جو یاد آئی بھی


دیکھنا بھی نہیں اس سمت گوارا ان کو
ختم ہے سلسلۂ حوصلہ افزائی بھی


جب سے انداز‌ بہاراں میں تغیر آیا
مٹ گیا دل سے خیال چمن آرائی بھی


ہر طرف بانگ جرس بانگ درا بانگ اذاں
سونے والے ہیں کہ لیتے نہیں انگڑائی بھی


کون اب ہم کو تجلی کی حقیقت سمجھائے
ہو گئے گم ترے جلووں میں تماشائی بھی


کتنی مشکل ہے کسی شعر کی تحلیل نصیرؔ
کتنی دشوار ہے احساس کی گیرائی بھی