تو چاند ہے تو چاند نگر مجھ سے چھین لے

تو چاند ہے تو چاند نگر مجھ سے چھین لے
میں کیا کروں گا خاک بسر مجھ سے چھین لے


اب تیری بے رخی کا بھی آتا ہے یوں خیال
جیسے کوئی متاع دگر مجھ سے چھین لے


تو خود ہی اپنی طرز ستم پر نگاہ رکھ
میں کیا کہوں یہ درد جگر مجھ سے چھین لے


ڈستے رہیں گے ذہن کو کب تک مشاہدات
یا رب یہ امتیاز نظر مجھ سے چھین لے


پہچانتی نہیں ہے اسے جب کسی کی آنکھ
بیکار ہے نشان ہنر مجھ سے چھین لے


روئے سحر تو خیر مجھے کیا دکھائے گا
تو آرزوئے دید سحر مجھ سے چھین لے