قریب آ کہ خزانہ ہوں لعل و گوہر کا

قریب آ کہ خزانہ ہوں لعل و گوہر کا
ہزار ریت سہی ریت ہوں سمندر کا


کھلا ہے پھول بہت روز میں مقدر کا
بس اب نہ بند ہو دروازہ تیرے مندر کا


یہ راہے گاہے کا ملنا بھی کوئی ملنا ہے
جو ہو سکے تو پتہ دیجئے کبھی گھر کا


تمام شہر ہے ہنگامۂ نشاط میں گم
مگر یہ کرب یہ سناٹا میرے اندر کا


صدا کسی کی ہو آتا ہے اپنے آپ سے خوف
میں وہ غریب کہ گھر کا رہا نہ باہر کا


کبھی نہ کھل کے ہنسا ہوں نہ رویا جی بھر کے
رکھا ہے میں نے ہمیشہ قدم برابر کا


کبھی کبھی کا ہو قصہ تو کوئی دکھ بھی سنے
اٹھائے بوجھ بھلا کون زندگی بھر کا


گریز ہے اسے میری گلی سے یوں جیسے
یہاں جو آیا تو ہو جائے گا وہ پتھر کا


اسیر دام فریب زباں ہوا آخر
نہ اعتبار جسے آیا دیدۂ تر کا


غم زمانہ ہے وہ تیغ تشنہ کام انجمؔ
اڑے ہیں پاؤں اگر وار بچ گیا سر کا