میری بستی میں جو سورج کبھی اترا ہوتا

میری بستی میں جو سورج کبھی اترا ہوتا
میں بدن ہوتا ترا تو مرا سایہ ہوتا


کس کی بے مہر ادا سے ہمیں شکوہ ہوتا
ہم کسی کے نہ ہوئے کون ہمارا ہوتا


جان پر کھیل کے میں راہ وفا طے کرتا
اس کی جانب سے مگر کچھ تو اشارہ ہوتا


دل کا احسان ہے جو بجھ گیا خود ہی ورنہ
جانے میں کس کو کہاں ڈھونڈنے نکلا ہوتا


اس کو پانے کی تو حسرت ہے اسے پا کر بھی
کس کو معلوم ہے دل یوں ہی اکیلا ہوتا


دور سے کھینچتا رہتا ہے جو تصویر مری
کاش اس نے کبھی نزدیک سے دیکھا ہوتا


سن کے یاروں کے الم سوچتا رہتا ہوں کہ میں
کیسے جیتا جو ترا پیار بھی جھوٹا ہوتا


میرے عیبوں میں ہے شامل مری مجبوری بھی
میں بھی انسان نہ ہوتا تو فرشتہ ہوتا


تم نہ آئے کبھی نزدیک تو اچھا ہی کیا
لوگ ناداں ہیں یوں ہی شہر میں چرچا ہوتا


دنیا داری میں پڑے ہوتے جو تم بھی انجمؔ
دل بھی خوش رہتا سدا نام بھی اونچا ہوتا