تو اگر بے نقاب ہو جاتا

تو اگر بے نقاب ہو جاتا
تو ہر اک فیضیاب ہو جاتا


تارے سب ماہتاب ہو جاتے
ماہتاب آفتاب ہو جاتا


لکھتے دیوان میں جو وصف رخ
ہر ورق آفتاب ہو جاتا


تو بتاتا جو راہ مے خانہ
شیخ کار ثواب ہو جاتا


امتحاں لیتے ہیں وہ مقتل میں
پہلے میں انتخاب ہو جاتا


تھی ہوائے خودی بھری اس میں
کیوں نہ بے خود حباب ہو جاتا


جاگ اٹھتے نصیب عاشق کے
یار اگر مست خواب ہو جاتا


چین سے سوتے فرش راحت پر
جو خیال ان کا خواب ہو جاتا


شب وعدہ اگر نہ آتے آپ
خواب بھی مجھ کو خواب


کاش اے درد عشق تیرے لیے
دل مرا انتخاب ہو جاتا


یا رب اس بت کو شوخیاں آتیں
دور اس سے حجاب ہو جاتا


چال چلتے جو تم قیامت کی
فتنہ ہی ہم رکاب ہو جاتا


اپنا ناخن تراشتا وہ خود
مہ نو کا جواب ہو جاتا


جنگ ہوتی عدو سے اے صابرؔ
اور میں فتح یاب ہو جاتا