ہم دیکھتے ہیں ان کی طرف بار بار کیوں

ہم دیکھتے ہیں ان کی طرف بار بار کیوں
اپنی نظر پہ ہم کو نہیں اختیار کیوں


وہ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ہو بے قرار کیوں
میں ان سے پوچھتا ہوں کہ ہو طرحدار کیوں


دریا بہا رہی تو اے چشم زار کیوں
دم بھر بھی ٹوٹتا نہیں اشکوں کا تار کیوں


تم مجھ پہ ڈھا رہے ہو ستم بار بار کیوں
آخر رلا رہے ہو مجھے زار زار کیوں


پژمردہ ہوتے جاتے ہیں گلہائے داغ دل
آتی نہیں چمن میں ہمارے بہار کیوں


کیا پھونک کر رہے گی مرے آشیانے کو
بجلی لپک رہی ہے ادھر بار بار کیوں


وعدہ ہی وعدہ تھا نہ وہ آئے نہ آئیں گے
اے چشم آرزو ہے تجھے انتظار کیوں


اپنی نظر سے پوچھئے حال دل حزیں
بے اختیار کیوں ہے نہیں اختیار کیوں


جب تیری رحمتوں کا نہیں ہے کوئی شمار
عصیاں کا میرے ہوتا ہے یا رب شمار کیوں


کیا ہیں کسی کے گیسوئے مشکیں کھلے ہوئے
ہے گلشن جہاں کی فضا عطر بار کیوں


اپنی طرح مجھے بھی کرے گی تمام کیا
تڑپا رہی ہے مجھ کو شب انتظار کیوں


ہیں یوں تو طرحدار زمانے میں اور بھی
لیکن ہے آپ ہی پہ زمانہ نثار کیوں


زخمی ہیں دونوں کیا ترے تیر نگاہ کے
دل میں خلش ہے اور جگر داغدار کیوں


صابرؔ کی زندگی میں تو پوچھا نہ آپ نے
مرنے کے بعد پوچھ رہے ہیں مزار کیوں