نہ کوئی آرزو جس میں ہو وہ اجڑا ہوا دل ہوں

نہ کوئی آرزو جس میں ہو وہ اجڑا ہوا دل ہوں
غرض بے کار ہوں اک دم جلا دینے کے قابل ہوں


تجھے الفت عدو کی ہے عدو کو تیری الفت ہے
نہ اب تو میرے قابل ہے نہ اب میں تیرے قابل ہوں


مجھے آساں نہ سمجھو اپنی چوکھٹ سے اٹھا دینا
بڑی مشکل سے جو ٹلتی ہے اے جاں میں وہ مشکل ہوں


سیہ بختی میں بھی میں نے وہ رنگ اپنا جمایا ہے
کسی کی آنکھ میں کاجل کسی کے گال پر تل ہوں


عدو پر ظلم ڈھاتے ہو نہ اس کو قتل کرتے ہو
اسی پر ہے تمہیں دعویٰ کہ ظالم ہوں میں قاتل ہوں


حلاوت سے عدو کو اور مجھے تلخی سے فرمایا
تمہیں قند مکرر ہوں تمہیں زہر ہلاہل ہوں


نہیں ممکن تمنائے ملاقات ان سے بر آئے
کہ وہ انجان ہیں اے حضرت صابرؔ میں ان مل ہوں