تمہیں تم سے چرانے آ گئے ہیں

تمہیں تم سے چرانے آ گئے ہیں
محبت کو بڑھانے آ گئے ہیں


ہنسی کو قید سے آزاد کر دو
یہ دیکھو مسکرانے آ گئے ہیں


ابھی تو ہم سے ملنے تم چلے آؤ
کہ اب موسم سہانے آ گئے ہیں


غزل لکھی ہے یادوں میں تمہاری
وہی شب بھر سنانے آ گئے ہیں


گلے شکوے بہت تھے درمیاں تو
کہ اب سارے مٹانے آ گئے ہیں


غموں کا بوجھ ہے سر پر تمہارے
ابد تک ہم اٹھانے آ گئے ہیں


کئی الفاظ سینے میں دبے تھے
سبھی تم کو بتانے آ گئے ہیں


محبت کے تقاضے دشمنوں میں
یہ شیریںؔ ہم نبھانے آ گئے ہیں