تجھے سناؤں غزل یا سناؤں اپنا غم

تجھے سناؤں غزل یا سناؤں اپنا غم
ذرا ارادہ بتا تو بھی کچھ اے میرے صنم


میں شاہزادی ہوں الفاظ کے ریاست کی
خزانہ شعر و سخن کا کبھی نہ ہوگا کم


نبھا رہے ہیں سبھی سے خلوص کے رشتے
اسی سے باقی ہے دنیا کے بازووں میں دم


جو ہم سے رات میں تنہائی ہم کلام ہوئی
سنور گیا مرے جذبوں کا آج سارا خم


مجھے پسند نہیں بے حیائی دنیا کی
کوئی سمیٹ لے آ کر تمیز کا یوں بھرم


بیان کر دیا جذبات میں نے بھی شیریںؔ
ہنر یہ اپنا نہیں ہے خدا کا خاص کرم