تمہاری یاد کے ہر شے سے نظارے نکلتے ہیں

تمہاری یاد کے ہر شے سے نظارے نکلتے ہیں
جو مجھ سے فرض چھوٹے ان کے کفارے نکلتے ہیں


دعاؤں کا اثر ماں کے لبوں سے پھوٹ پڑتا ہے
میں جب بے چارہ ہوتا ہوں کئی چارے نکلتے ہیں


کبھی بے حرمتی مسجد کی اور اپمان مندر کا
امیر شہر کے گھر سے کئی دھارے نکلتے ہیں


کہاں کا علم کیسی ڈگریاں یہ حال ہے کہ اب
جہاں سورج تلاشو گھور اندھیارے نکلتے ہیں


یہی گر فیصلہ ہے آپ کا تو یہ بھی سن لیجے
ہمارے ساتھ یادوں کے کئی دھارے نکلتے ہیں