جب کی نظر تلاش فریب نظر ملا
جب کی نظر تلاش فریب نظر ملا
داد ہنر کے نام پہ زخم ہنر ملا
خود اپنے سر پہ اپنی صلیبیں اٹھا چلو
آوارگان شہر کو کار دگر ملا
انعام قد کی نشو و نما سے مکر گیا
دستار تو ملی ہے مگر کس کو سر ملا
تم مل سکے نہ ترک تعلق کے بعد پھر
یادوں کا اک ہجوم مجھے عمر بھر ملا
میرے دل تباہ نے سو سو جتن کیے
جو نسخۂ وفا بھی ملا بے اثر ملا
تم جس قدر غرور سے نشہ بہ سر ملے
ہاں اتنے ہی خلوص سے میں سر بہ سر ملا