تختۂ مشق بنوں جاں بہ سپر ہو جاؤں

تختۂ مشق بنوں جاں بہ سپر ہو جاؤں
تو بتا کون سا چہرہ لوں کدھر ہو جاؤں


بے زبانوں کی رفاقت بھی میسر کر لی
بولئے آپ کا منظور نظر ہو جاؤں


راہ تکتے ہوئے آنکھیں تو ادھوری ٹھہریں
کہیے سرکار کہ اب راہ گزر ہو جاؤں


میری آواز سے ہمت کو جلا ملتی ہے
بے کسی ٹوٹ پڑے میں کہ جدھر ہو جاؤں


خیر ٹھہری ہے زمانے کے موافق ہونا
ہونے کو جی نہیں چاہے ہے مگر ہو جاؤں


جو بغاوت پہ وعیدوں سے نکھر جاتا ہے
فرحتؔ تلخ نوا تیشہ نظر ہو جاؤں