نا سازگار حالات

تن پہ اوڑھے ہوئے چادر غم تنہائی کی
آج بیمار میں بستر پہ پڑی سوچتی ہوں
حال ناساز ہے میرا یہ بتاؤں کس کو
اپنی تکلیف پریشانی سناؤں کس کو
جب سہا جاتا نہیں درد تو اٹھ جاتی ہوں
اور پھر اٹھ کے دوا زہر سی میں کھاتی ہوں
کوئی ہم درد تو ہوتا کہیں نزدیک میرے
دیکھ کر درد مرا وہ بھی پریشاں ہوتا
ہاتھ سے اپنے دوا دیتا سہارا دیتا
یوں نہ گھبراؤ مجھے کہہ کے دلاسہ دیتا
ٹھیک ہو جاؤ گی اپنے کو سنبھالو تھوڑا
اور اصرار یہ کرتا چلو کھا لو تھوڑا
اس زمانہ میں ہوئی کس کی تمنا پوری
کون بد حال کی سمجھا ہے یہاں مجبوری