چہرے پہ دمک اٹھتا ہے جب رنگ حیا اور
چہرے پہ دمک اٹھتا ہے جب رنگ حیا اور
ایسے میں مزہ دیتی ہے اپنی ہی ادا اور
گر جاں بھی مری جائے تو بانہوں میں تمہاری
دل میں کوئی خواہش ہی نہیں اس کے سوا اور
در چھوڑ کے تیرا تو کہیں جا نہ سکوں گی
کافر تو نہیں ہوں جو بنا لوں گی خدا اور
ہر چند کہ گھائل ہوں مگر سانس ہے باقی
جینے کی مجھے دیجئے اب کوئی سزا اور
لکھنے ہیں مجھے خواب کے پنوں پہ اجالے
آنکھوں میں جلا لوں گی ثمینہؔ میں دیا اور