تمہارے غم نے ہمیں اس قدر سنبھال دیا

تمہارے غم نے ہمیں اس قدر سنبھال دیا
کسی نے کچھ بھی کہا ہم نے ہنس کے ٹال دیا


مذاق عشق مشیت نے حسب حال دیا
مجھے نگاہ عطا کی تمہیں جمال دیا


جو آج وعدہ کیا کل پہ اس کو ٹال دیا
یوں روز روز کی الجھن میں دل کو ڈال دیا


تیرے جمال کو دیکھا تو یوں لگا جیسے
مجاز میں ہی حقیقت نے خود کو ڈھال دیا


جو آنکھ سے ابھی ٹپکا تھا کوئی ارماں تھا
دل غریب نے گھر سے جسے نکال دیا


نہ جانے کتنے غموں کو مسرتیں بخشیں
جو غم دیا مجھے تو نے وہ لا زوال دیا


یہ کیا کہ اس نے محبت کے امتحاں کے لئے
کسی سے حل جو نہ ہو مجھ کو وہ سوال دیا


کسی کی یاد نے بخشیں جو دھڑکنیں دل کو
انہیں کو شعر کے قالب میں میں نے ڈھال دیا


نظرؔ اسی سے نہ داد سخن ملی مجھ کو
مری غزل نے جسے حسن لا زوال دیا