موت آئے گھر سے دور بھی گر ناگہاں مجھے

موت آئے گھر سے دور بھی گر ناگہاں مجھے
مٹی تری نصیب ہو ہندوستاں مجھے


ناقوس سے ہے آتی صدائے اذاں مجھے
کہنے دو جو بھی کہتے ہیں اہل جہاں مجھے


منزل کی آرزو ہے نہ اب اس کی جستجو
چھوڑا جنون شوق نے لا کر کہاں مجھے


یہ دل کی دھڑکنیں ہیں کہ پردے میں روز و شب
کوئی سنا رہا ہے مری داستاں مجھے


اے دل ہزار بار ترا امتحاں لیا
لے لینے دے اب اپنا ذرا امتحاں مجھے


یہ بھی نظرؔ ادائے فریب وفا نہ ہو
وہ آج آ رہے ہیں نظرؔ مہرباں مجھے