کیا جانے کیا تم نے سوچا کچھ تو آخر سوچا ہوگا
کیا جانے کیا تم نے سوچا کچھ تو آخر سوچا ہوگا
ہم نے تو یہ سوچ لیا ہے جو بھی ہوگا اچھا ہوگا
آوارہ سا پھرتا تھا جو ایک جگہ کب ٹھہرا ہوگا
کیا جانے کس آنگن میں وہ ابر کا ٹکڑا برسا ہوگا
ہو کے خفا پہلے تو اس نے رسم وفا کو توڑا ہوگا
دل کے ہاتھوں بے بس ہو کر پھر مجھ کو خط لکھا ہوگا
اپنے چھوٹے سے کمرے میں کھویا کھویا تنہا تنہا
یاد کسی کی آتی ہوگی چپکے چپکے روتا ہوگا
آئنہ دل کا ٹکڑے ٹکڑے عکس تمنا بکھرے بکھرے
آخر ایسا کون آیا تھا جس نے پتھر پھینکا ہوگا
جس نے سب کی پیاس بجھائی پیاس نہ اس کی سمجھا کوئی
وہ تو اک ایسا دریا تھا صدیوں سے جو پیاسا ہوگا
بام و در ہیں مہکے مہکے چاروں طرف خوشبو کے ڈیرے
شاید آیا ہوگا نظرؔ وہ گھر یوں ہی کب مہکا ہوگا