تمہارا کیا ہے

تمہارا کیا ہے کہ تم ہزاروں دلوں کی دھڑکن
تمہارا کیا ہے
کہ اک اشارے پہ پھول کلیاں تمہارے قدموں میں آ گرے ہیں
نہ جانے کتنی ہی سر زمینوں کے تم فلک ہو
نہ جانے کتنے ہی تشنہ جسموں کا چین ہو تم


ہمارا کیا ہے
کہ نارسائی کی داستاں کا بنے ہیں عنواں
ہمارا کیا ہے
کہ عمر ساری بتائی ہم نے تو وحشتوں میں
کہ تم سے وابستہ ہو کے ہم نے جو درد پایا
وہ درد چہرے کی ملگجی رت کا استعارہ بنا ہوا ہے
یہ درد وہ ہے جو باقی ماندہ حیات کا آسرا بنا ہے
یہ درد وہ ہے جو آنے والی کسی بھی ساعت میں روشنی کا نقیب ہوگا
کہ ہم تو وہ ہیں
تمہاری یادوں کی شعلگی میں جلا کے خود کو
ہے صبر کرنا
اندھیر نگری میں جبر کرنا
ہے اب بھی باقی