خدا جانتا ہے
یہ اشکوں کی حدت
خدا جانتا ہے کہ کس جذبۂ نارسا کی ہے شدت
ان اشکوں کے پیچھے
چھپی داستانوں کے ہیں رنگ کتنے خدا جانتا ہے
چمک میں ان اشکوں کی
کتنی تمناؤں کے دیپ کی جھلملاہٹ خدا جانتا ہے
روانی میں ان کی سفر در سفر مسافت کا اک سلسلہ ہے
اور ان آنسوؤں میں کشش کا وہ ساماں
جو بے کیف رشتوں کے بار گراں ہی کا اک مسئلہ ہے
یہ آنسو جو یوں ڈھل رہے ہیں
خدا جانتا ہے کہ کس ماندگی کا اشارہ بنیں گے