اندر کی تنہائی

اپنے گھر سے اس کے گھر تک
رستہ سارا جل تھل تھا
اس کے گھر میں یوں لگتا تھا
خوشیاں رقص کناں ہوں جیسے
جیون کے سب رنگ وہاں تھے


لیکن ہم جب لوٹ کے آئے
ساتھ اپنے حیرانی لائے
ہاتھ پکڑ کر بیٹھنے والا گال پہ تھپکی دینے والا
لب مسکان سجانے والی ہر پل دل کو لبھانے والی
یوں لگتا تھا ایک ہیں دونوں
لیکن اندر کی تنہائی کا سناٹا چیخ رہا تھا