تمہارا دل تو ہمارے سبھاؤ جیسا ہے

تمہارا دل تو ہمارے سبھاؤ جیسا ہے
ہٹا کے چہرے سے چہرہ دکھاؤ جیسا ہے


وہ چوکتا ہی نہیں جس پہ داؤ جیسا ہے
ہمیں خبر ہے وہاں رکھ رکھاؤ جیسا ہے


مجھے دھکیل کر اس کا ضمیر جاگ اٹھا
اب اس کا حال بھی طوفاں میں ناؤ جیسا ہے


تو کیا وہ دست مشیت کا شاہکار نہیں
پرانا یار ہے یارو نبھاؤ جیسا ہے


سنہرے خواب دکھائے نہ آپ ہی دیکھے
ہمارا یار ہمارے سبھاؤ جیسا ہے


ابھر رہی ہیں نئے خون میں نئی قدریں
خلوص میں بھی گھماؤ پھراؤ جیسا ہے


یہ اور بات کہ دم دے رہا ہو سوز دروں
بجھا ہوا وہ بظاہر الاؤ جیسا ہے


کھلے گا خود وہ کسی روز مثل بند قبا
نہ چھپ سکے گا لہو میں رچاؤ جیسا ہے


وہ اس کا حال زبوں اس پہ خندۂ بے باک
حسیں سماج کے چہرے پہ گھاؤ جیسا ہے


ہے اپنی پیٹھ کا ہر زخم آئنہ غوثیؔ
مرے رفیقوں کو مجھ سے لگاؤ جیسا ہے