حیرت ہے
عورتیں جنس تو نہیں ہوتیں
جن کو بازار میں کھڑا کر دو
اپنے ہر اک گناہ کے بدلے
ان کو تاوان میں ادا کر دو
اپنے کردار کی گراوٹ کو
ایسے چہروں پہ تم سجاتے ہو
اپنی تہذیب کا حسیں چہرہ
کس طرح مسخ کرتے جاتے ہو
اپنی ماں بہن اور بیٹی کا
جس طرح ماس نوچ کھاتے ہو
ایسے بے حس تماش بینوں کی
آنکھ کی روشنی پہ حیرت ہے
ایسی غیرت کے نام پر ننگی
ناچتی زندگی پہ حیرت ہے