ہجرتوں کی گود میں پلتے رہے

ہجرتوں کی گود میں پلتے رہے
تھے وفاؤں کے دیے جلتے رہے


داغ ہجرت سے ملی تسکین جاں
حسرتوں میں لوگ کچھ جلتے رہے


جن کو دعویٰ تھا رہیں گے ساتھ ساتھ
وقت رخصت ہاتھ ہی ملتے رہے


موجزن گم گشتہ منزل کی لگن
کارواں در کارواں چلتے رہے


اک ضیا پاشی محیط بزم تھی
داغہائے دل جہاں جلتے رہے


اقتدار و ثروت و سطوت سبھی
عمر رفتہ کی طرح ڈھلتے رہے


دیکھنا صادقؔ مآل دوستاں
نار بغض و کیں میں جو جلتے رہے