تجھے میری خموشی سے بھی اندازہ نہیں ہوتا
تجھے میری خموشی سے بھی اندازہ نہیں ہوتا
کہ میں اب صرف باتوں سے تر و تازہ نہیں ہوتا
ترا آنا بھی دیکھے گا ترا جانا بھی ہر کوئی
محل کی طرح گھر میں چور دروازہ نہیں ہوتا
نتیجوں سے بھری دنیا میں پیدا ہونے والوں کا
بھروسہ تو بہت ہوتا ہے خمیازہ نہیں ہوتا
تری آواز بھاری ہوتی تو سنتا نہیں کوئی
ترے پاؤں نہیں ہوتے تو آوازہ نہیں ہوتا
وہ جس کی ایک ٹھوکر سے ہماری خاک اڑتی ہے
اسی کے پاس گالوں کے لئے غازہ نہیں ہوتا
اسے ان شاعروں سے تازہ پھولوں کی توقع ہے
کہ جن کی شاعری میں شعر بھی تازہ نہیں ہوتا
بچھڑتے وقت ہم دونوں کی حالت ایک جیسی تھی
بکھرتے وقت جیسے کوئی شیرازہ نہیں ہوتا