بھائی کمال کر دیا دیوار کھینچ کر
بھائی کمال کر دیا دیوار کھینچ کر
پہلے یہ کام ہوتا تھا تلوار کھینچ کر
اتنا جھکا دیا ہے ترے ہجر نے مجھے
بچہ بھی سر سے لے گیا دستار کھینچ کر
کردار بھی دکھاتا اگر شکل کی طرح
دے مارتے زمیں پہ مجھے یار کھینچ کر
یہ کائنات میرے تخیل سے چھوٹی ہے
دیکھا ہے اس کو میں نے کئی بار کھینچ کر
نوکر نہیں سمجھتا زباں کو میں کان کا
پڑھتا نہیں ہوں اس لئے اشعار کھینچ کر