تجھ سے بڑھ کر نگہ لطف و عطا کس کی تھی

تجھ سے بڑھ کر نگہ لطف و عطا کس کی تھی
اس کی تعبیر مگر میرے خدا کس کی تھی


شہر کے شور میں صحراؤں کے سناٹے میں
میں کھڑا سوچ رہا ہوں کہ صدا کس کی تھی


میں نے خود اپنے لہو سے یہ چمن سینچا تھا
مجھ سے اب پوچھ رہے ہو کہ خطا کس کی تھی


میں کہ آئینہ تھا پھر سنگ ملامت کیسا
دل خوں گشتہ میں تصویر بتاں کس کی تھی


اب خد و خال نقابوں میں نہیں چھپ سکتے
جسم خود چیخ اٹھے گا کہ قبا کس کی تھی


اپنے لہجے میں کوئی رنگ بھرو یا نہ بھرو
لوگ پہچان گئے طرز ادا کس کی تھی