ترے خیال سے بڑھ کر خیال کیا ہوگا

ترے خیال سے بڑھ کر خیال کیا ہوگا
تو جس کے دل میں ہے اس کو ملال کیا ہوگا


بھلا دیا تھا جہاں بھر کو تیری قربت میں
کبھی نہ سوچا کہ فرقت میں حال کیا ہوگا


خدا کے وصل سے ناصح نہیں غرض ہم کو
وصال یار سے بڑھ کر وصال کیا ہوگا


نگاہ حسن سے عہد وفا جو ظاہر ہے
تو کہیے عشق کے لب پر سوال کیا ہوگا


بلا کا حسن ہے حوروں پہ شیخ جی لیکن
جمال یار سے بڑھ کر جمال کیا ہوگا


چھلک پڑے ہیں کئی جام تیرے آنے پر
تو بے نقاب ہو ساقی تو حال کیا ہوگا


تصورات ارم خوب ہیں مگر نردوشؔ
دیار یار سے بڑھ کر کمال کیا ہوگا