ہے ان کا وصل گوہر نایاب کی طرح

ہے ان کا وصل گوہر نایاب کی طرح
ہو جائے ہے وہ عید کے مہتاب کی طرح


اے شوق عشق خیر ہو تیرے شباب کی
ہم کو کئے ہو ماہیٔ بے آب کی طرح


للہ یوں نہ دیکھیے ترچھی نگاہ سے
ڈر ہے بکھر نہ جاؤں میں سیماب کی طرح


دعوت پہ میری آپ جو آئے ہیں شکریہ
خوشیوں کے اشک بہتے ہیں سیلاب کی طرح


اس دل کے دشت کوچۂ ویراں میں رات دن
بھٹکا کرے ہیں حسرتیں اعراب کی طرح


نردوشؔ اپنی زندگی ہے ساز غم کا تار
اور چھیڑے ان کی بے رخی مضراب کی طرح