ترا غم دل پہ افشا کر رہے ہیں

ترا غم دل پہ افشا کر رہے ہیں
سو دل سے کار دنیا کر رہے ہیں


تجھے اب کیا بتائیں ہم ترے بعد
بہ نام زیست کیا کیا کر رہے ہیں


ہزاروں رنج پے در پے اٹھا کر
بس اک غم کا مداوا کر رہے ہیں


کچھ ایسا ہے غم تنہائی در پیش
کہ اک عالم کو اپنا کر رہے ہیں


کبھی جو کام چاہت سے کیے تھے
انہیں کا آج صدمہ کر رہے ہیں


یہ زخم دل سلامت ہم اسی کو
مقدر کا ستارہ کر رہے ہیں


کسی صورت جو پوری ہو نہ پائے
ہم اک ایسی تمنا کر رہے ہیں


جو کرنا چاہتے تھے بالارادہ
وہ سب کچھ بے ارادہ کر رہے ہیں


انہی لوگوں کو ہے دنیا میسر
کہ جو اس سے کنارہ کر رہے ہیں


وہی کرنے کی حسرت جاں گسل ہے
کہ جو کرنے کا چرچا کر رہے ہیں