طلسماتی سپاہی کا قصہ:پہلی قسط

سلمانکا سینٹ سپرین کے غار کا نام کس نے نہیں سنا ہو گا؟ کہتے ہیں کہ پرانے زمانے میں ایک ساحر گورکن یہاں پوشیدہ طور پر ہئیت، علم الارواح اور دوسرے علومِ مظلمہ اور فنونِ خبیثہ کی تعلیم دیتا تھا۔بلکہ بعض لوگوں کا تو یہ خیال ہے کہ اس ساحر گورکن کے بھیس میں خود ابلیس تھا۔ اس غار کا منہ مدتیں ہوئیں بند کر دیا گیا اور لوگ یہ بھی نہیں جانتے کہ اس کا محل وقوع کیا تھا، گو عام روایت یہ ہے کہ یہ غار اس جگہ تھا جہاں مدرسۂ قروجل کے مختصر صحن میں پتھر کی صلیب نصب ہے۔ اور ہم اس وقت جو داستان سنا رہے ہیں اس سے اس روایت کی تصدیق ہوتی ہے۔

کسی زمانے میں سلمانکا میں ایک طالب علم پڑھتا تھا، جس کا نام ڈان وِسنتے تھا۔ یہ طالب علم بےفکرے طلباء کے اس گروہ سے تعلق رکھتا تھا جو خالی ہاتھ اور خالی جیب لے کر علم کی رہ گزر پر گامزن ہو جاتے ہیں اور مدرسے کی تعطیل کے زمانے میں قریہ قریہ، دیار دیار پھر کر دریوزہ گری کرتے ہیں اور اپنی تعلیم کے لئے فلوس و دِرم فراہم کرتے ہیں۔ چھٹیاں ہوئیں تو وِسنتے نے بھی یہ مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسے موسیقی سے تھوڑا بہت لگاؤ تھا اس لئے اپنا سفر شروع کرنے سے پہلے اس نے اپنے کندھے پر ایک ستار رکھ لیا کہ سادہ دل دہقانیوں کو خوش کر کے اپنے لئے زادِ راہ حاصل کرتا رہے۔

وہ مدرسے کے صحن میں لگی ہوئی پتھر کی صلیب کے پاس سے گزر رہا تھا کہ اس نے اپنی ٹوپی اتاری اور سینٹ سپرین سے اپنی مہم کی کامیابی کی دعا مانگنے لگا۔ وہ دعا مانگ رہا تھا کہ صلیب کے قریب زمین پر اسے کوئی چیز چمکتی ہوئی دکھائی دی۔ اس نے جھک کر وہ چمکدار چیز اٹھائی تو وہ کسی کی مہر تھی جو سونے اور چاندی کے میل سے بنائی گئی تھی۔ مہر پر دو مثلث اس طرح بنے ہوئے تھے کہ ان کے کٹنے سے ایک ستارے کی شکل بن جاتی تھی۔ ستارے کے اس نمونے کو قوت کی ایک علامت سمجھا جاتا ہے، اور جسے سحر و طلسم میں بڑی اہم چیز خیال کیا جاتا ہے، لیکن سیدھا سادا طالب علم نہ ولی تھا نہ ساحر اور اس لئے اس علامت کی اہمیت سے واقف نہ تھا۔ اس نے انگوٹھی کو سینٹ سپرین کا انعام سمجھ کر انگلی میں ڈال لیا اور صلیب کو تعظیم دے کر ستار کے تاروں پر انگلیاں مارتا خوشی خوشی اپنی مہم پر روانہ ہو گیا۔

اسپین میں اس طرح کے گداگر یا وظیفہ خوار طالب علموں کی زندگی بڑے مزے سے گزرتی ہے بشرط یہ کہ وہ دوسروں کو خوش کرنے کا ہنر جانتے ہوں۔ وہ اپنے من کی موج میں گاؤں گاؤں، شہر شہر گھومتے پھرتے ہیں۔ گاؤں کے چھوٹے پادری، جو اپنی طالب علمی کا دور اسی طرح گزار چکے ہوتے ہیں  ان سیاح طالب علموں کی دل سے اور قابل قدر انداز سے میزبانی کرتے ہیں اورجاتے ہوئے  دو چار سونے یا چاندی کے سکے بھی عنایت   کر کے انہیں رخصت کر دیتے ہیں۔ شہر کی گلیوں میں دربدر پھرنے والے ان طالب علموں کو نہ کوئی حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے اور نہ ان سے بےرخی برتتا ہے۔ اس لئے کہ علم کے حصول کی خاطر یہ دریوزہ گری(بھیک مانگنا ) کوئی معیوب چیز نہیں۔ یوں کہ ہسپانیہ کے اکثر اربابِ علم و فضل کی علمی زندگی کا آغاز اسی طرح ہوتا ہے۔ لیکن اگر طالب علم ایسا ہو جیسا کہ ڈان وسنتے تھا  ،  خوش رو اور خوش مزاج اور ستار بجانے کے ہنر سے واقف، تو دہقان اس کا بڑا پرجوش خیر مقدم کرتے ہیں ۔
غرض یہ کہ علم و دانش کے اس شکستہ حال اور موسیقی داں فرزند نے اسپین کی مملکت کا نصف سے زیادہ حصہ طے کر لینے کے بعد یہ تہیہ کیا کہ واپسی سے پہلے غرناطہ کی زیارت ضرور کرے گا۔ اپنی اس طالب علمانہ سیاحت میں اسے کبھی گاؤں کے پادری کی میزبانی کا شرف حاصل ہوتا اور کبھی کسی دہقان کی سادہ لیکن پرخلوص جھونپڑی کی آغوش میں پناہ ملتی۔ جب وہ دہقانوں کی جھونپڑیوں کے دروزے پر بیٹھ کر ستار بجاتا اور سادہ دھن میں کوئی دلکش نغمہ چھیڑتا   تو سادہ دل دہقانوں کے دل کنول کی طرح کھل جاتے اور کبھی کبھی گاؤں کے چراغوں کی مدھم روشنی میں دہقانوں کے معصوم بچے اور بچیاں اس کی دھنوں پر رقص کرنے لگتے۔ صبح کو وہ میزبان اور اس کی بیوی کی دعاؤں  کاتحفہ لے کر وہاں سے رخصت ہو جاتا۔

بالآخر ہوتے ہوتے وہ اپنی اس پُر ترنّم آوارگی کی منزلِ مقصود، یعنی غرناطہ کے مشہور و معروف شہر میں پہنچ گیا اور حیرت سے عربوں کے تعمیر کئے ہوئے بُرجوں اور میناروں، اس کے حسین مرغزاروں اور بہار کی فضا میں چمکتے ہوئے برفانی پہاڑوں پر نظر ڈال کر خوش ہونے لگا۔ یہ بتانا  لا حاصل ہے کہ وہ کس فرطِ شوق سے غرناطہ کے پھاٹک میں داخل ہوا اور اس کی شاہراہوں پر گھوم پھر کر مشرقی تعمیر کی شاندار یادگاروں کا کس حیرت و استعجاب سے مشاہدہ کیا۔ شہر کی شاہراہ سے گزرتی ہوئی ہر حسینہ کو اس کی نظر نے کوئی عرب شہزادی جانا اور اپنی طالب علمانہ گلیم اس کے قدموں میں بچھا دی۔
وِسنتے کے بوسیدہ فرسودہ لباس کے باوجود، اس کی موسیقی کی مہارت، اس کی زندہ دلی، اس کی کمسنی اور اس کی مردانہ وجاحت نے اسے   ایک نمایاں شخصیت  بنا دیا اور اس نے غرناطہ کی گلیوں اور اس کے نواح میں کئی دن بڑے لطف اور بڑی آسائش سے بسر کئے۔ غرناطہ میں اس کا سب سےپسندیدہ مستقر، وادیِ حدرہ کا مشہور فوارہ تھا۔ یہ فوارہ غرناطہ کی سب سے پُرلطف سیر گاہ ہے، جو عرب حکمرانوں کے زمانے میں اتنی ہی پسندیدہ تھی جتنی آج کل۔

 

جاری ہے۔

(مترجم: سید وقار عظیم)

متعلقہ عنوانات