طلسماتی سپاہی کا قصہ:تیسری قسط


طالب علم نے اپنے دل میں سوچا "یہ شہر قدیم زمانے کے عجائبات کا شہر ہے، اور یقیناً یہ سنتری بھی اس شہر کا ایسا عجوبہ ہے جس سے یہاں کے باشندے اچھی طرح مانوس ہیں اور اس لئے اس کی یہاں موجودگی ان کے لئے باعثِ استعجاب نہیں۔"

 لیکن اس کے ذوقِ تجسس نے اس کے قدموں کو جنبش دی اور طبعاً ملنسار ہونے کے سبب وہ سپاہی کے قریب گیا اور اسے یوں مخاطب کیا۔
"اجنبی دوست! تم نے کتنا عجیب زرہ بکتر پہن رکھا ہے؟ کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ تم کس فوجی دستے کے سپاہی ہو؟"
سپاہی نے ان جبڑوں کو ہلا کر جو یقیناً زنگ آلود ہو چکے تھے بہ مشکل جواب دیا۔
"فرڈیننڈ اور ازابیلا کے محافظ شاہی دستے کا !!!"
"خدا وند تم پر رحم کرے! لیکن یہ فوجی دستہ تو اب سے تین صدیاں  پہلے رہا  ہو  گا۔"
"
اور تین صدیوں سے میں سنتری کے فرائض انجام دے رہا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ اب میرے گشت کی مدت ختم ہونے والی ہے۔ لیکن تم بتاؤ  ، کیا تمہیں دولت چاہیے؟"
طالب علم نے جواب میں اپنا بوسیدہ لبادہ اس کے آگے پھیلا دیا۔
"میں تمہارا مطلب سمجھ گیا۔ لیکن تم میں ہمت اور ایمان ہے تو میرے ساتھ آؤ اور سمجھ لو کہ تمہارے دن پھر گئے۔"
"
دوست! ذرا  ٹھہر ٹھہر کر  بولو۔  اور جان لو کہ جس کے پاس ایک جان اور ایک ٹوٹے پھوٹے ستار کے سوا کھونے کو کچھ اور نہ ہو اسے تمہارے ساتھ چلنے کے لئے زیادہ ہمت کی ضرورت نہیں، اس لئے کہ میرے لئے ان دونوں چیزوں کی قیمت یکساں ہے۔ لیکن میرا ایمان؟ اس کی صورت ذرا مختلف ہے۔ اسے طمع کا شکار بنانا آسان نہیں۔ اگر میرے دن کوئی جُرم کر کے پھرنے والے ہیں تو ہر گز مت سمجھو کہ میرا یہ بوسیدہ لباس مجھے کسی جرم پر آمادہ کر  سکے گا۔"
سپاہی نے طالب علم پر سخت غصے کی نگاہ ڈالی اور بولا "میں نے تلوار  اپنے مذہب اور تاج کی حمایت کے سوا کبھی کسی اور مقصد سے نہیں اٹھائی۔ میں سچا عیسائی ہوں۔ مجھ پر بھروسا کرو اور بےخوف ہو کر میرے ساتھ چلو۔"
طالب علم حیرت سے اس کے پیچھے ہو لیا۔ وہ یہ دیکھ رہا تھا کہ گزرنے والوں میں سے کسی نے ان کی گفتگو میں ذرا بھی دلچسپی نہیں لی اور سپاہی سیلانیوں کے گروہوں میں سے اس طرح گزرتا رہا جیسے وہ کسی کو نظر ہی نہیں آ رہا۔
پُل پار کر کے، سپاہی ایک تنگ اور سنگلاخ راستے سے ہوتا ہوا مسلمانوں کے زمانے کی ایک پن چکی کے پاس پہنچا اور وہاں اس نالے کے اوپر چڑھ گیا جو الحمرا اور جنت العریف کی حد بندی کرتا ہے۔ سورج کی آخری کرنیں الحمرا کی قرمزی فصیلوں پر پہنچ کر اپنا دن کا سفر ختم کر رہی تھیں اور گرجا کی گھنٹیاں تہوار کی مسرتوں کا پیام سنا رہی تھیں۔ انجیر کے درختوں، انگور اور حنا کی شاخوں اور قلعے کے بیرونی بُرجوں اور دیواروں کا سایہ نالے پر پڑ رہا تھا۔ فضا تاریک اور سنسان تھی اور کہیں کہیں چمگادڑوں کے پیروں کی سنسناہٹ سنائی دینے لگی تھی۔ سپاہی چلتے چلتے ایک دُور اُفتادہ بُرج کے پاس آ کر ٹھہر گیا۔ اس نے اپنی برچھی کا دستہ زور سے زمین پر مارا۔ گڑگڑاہٹ کی آواز پیدا ہوئی اور سنگلاخ زمین میں دروازے کے برابر چوڑا ایک شگاف پیدا ہو گیا۔
سپاہی نے طالب علم سے کہا "مقدس تثلیث کا نام لے کر اندر داخل ہو جاؤ اور ڈرو مت!" طالب علم کا کلیجہ کانپ گیا لیکن اس نے اپنے سینے پر صلیب کا نشان بنایا اور اپنے پُراسرار رہنما کی قیادت میں ایک گہرے تہ خانے میں داخل ہوا جو چٹان کو کاٹ کر بنایا گیا تھا۔ تہ خانے کی دیواروں پر ہر طرف عربی عبارتیں کندہ تھیں۔ سپاہی نے تہ خانے کے ایک طرف بچھی ہوئی ایک پتھر کی تپائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے طالب علم سے کہا "تین سو سال سے یہی پتھر میری نشست گاہ ہے۔" حیرت زدہ طالب علم نے سپاہی پر ایک فقرہ چست کرنے کی کوشش کی "سینٹ انتھونی کی قسم! اس نرم و نازک بستر پر تمہیں نیند تو خوب گہری آتی ہو گی!"
"
تمہارا خیال درست نہیں۔ یہ آنکھیں نیند کی رفاقت سے بیگانہ ہیں۔ تین سو سال سے مسلسل نگہبانی میرا مقسوم رہی ہے۔ تم چاہو تو میری داستان سن لو۔ جیسا کہ میں تمہیں بتا چکا ہوں، میں فرڈنینڈ اور ازابیلا کے شاہی محافظ دستے کا ایک سپاہی تھا۔ عربوں کے ایک دھاوے میں گرفتار ہوا اور اس برج میں قید کر دیا گیا۔ جب عیسائیوں کا اقتدار شروع ہوا اور اس قلعے کو ان کے حوالے کرنے کی تیاریاں ہونے لگیں تو ایک بوڑھے نے میری مدد سے ابی عبداللہ کا کچھ خزانہ اس تہ خانے میں منتقل کر دیا ۔  یوں یہ خزانہ نہ ابو عبداللہ کے ہاتھ لگا اور نہ فرڈیننڈ  و   ازابیلا کے ۔بوڑھے  نے،  جو حقیقت میں ایک افریقی ساحر تھا، اپنے سحر کی تاثیر سے مجھے اس خزانے کا پاسبان بنا دیا۔ یہ خدمت میرے سپرد کر دینے کے بعد بوڑھا ساحر پھر کبھی یہاں نہیں آیا۔

خدا جانے اس کا کیا حشر ہوا۔ میں اسی وقت سے اس تہہ خانے میں زندہ درگور ہوں۔ صدیاں گزر گئیں۔ زلزلوں نے پہاڑ کو تہ و بالا کر دیا۔ بُرج اور قلعے کے پتھر ایک ایک کر کے زمین کی سطح پر آتے رہے۔ زمانے کی فطری دست برد نے گرد و پیش کی ہر چیز کو نیست و نابود کر دیا، لیکن تہ خانے کی سحرزدہ دیواریں زلزلے اور وقت کے حوادث سے بےخبر مضبوطی سے اپنی جگہ کھڑی ہیں۔"ہر سو سال کے بعد سینٹ جان کے تہوار کے دن طلسم کی تاثیر ختم ہو جاتی ہے اور مجھے اس غار سے حدرۃ کے پُل پر جا کر اس جگہ کھڑے ہونے کی اجازت ملتی ہے، جہاں آج تم نے مجھے دیکھا تھا۔ میں اس جگہ کھڑا ہو کر اس شخص کا انتظار کرتا ہوں جس کے ہاتھوں یہ طلسم ٹوٹنے والا ہے۔

 آج سے پہلے میں نے سینٹ جان کے دو تہوار وہاں کھڑے ہو کر گزارے لیکن مجھے میرے طلسم سے رہائی دینے والا نہ آیا، اور میں انسانوں کی نظر سے اوجھل اس طرح یہاں واپس آ گیا جیسے بادلوں نے مجھے پردے میں چھپا رکھا ہو۔ تم پہلے شخص ہو ججس نے تین سو سال بعد آج مجھ سے بات کی اور اس کا سبب مجھے معلوم ہے۔ تمہاری انگلی پر داؤدی ستارے والی  انگوٹھی ہے، جس کی تاثیر ، پہننے والے کو ہر طلسم کے اندیشوں سے بےخطر اور محفوظ کر دیتی ہے۔ اب یہ تمہارے ہاتھ میں ہے کہ مجھے اس قید سے رہائی دلواؤ یا سو برس کے لئے اور اسی قید میں چھوڑ جاؤ۔"
طالب علم حیرت سے مستغرق یہ داستان سنتا رہا۔ اس نے اس سے پہلے بھی الحمرا کے تہ خانوں میں چھپے ہوئے طلسمی دفینوں کے افسانے سنے تھے لیکن انہیں ہمیشہ محض افسانہ سمجھ کر ان پر یقین نہ کیا تھا۔ اسے اب اس مہر کی قیمت کا اندازہ ہوا جو اسے سینٹ سپرین سے انعام میں ملی تھی۔ گو وہ ایسے قوی اور مؤثر طلسم سے مسلح تھا لیکن اس طرح ایک طلسمی غار کے تہ خانے میں قید ہونا اور ایک ایسے طلسمی انسان سے باتیں کرنا جسے قوانینِ قدرت کے مطابق اب سے تین سو برس پہلے اپنی قبر میں دفن ہونا چاہیے تھا اسے بڑا عجیب معلوم ہوا۔
اس طرح کا انسان زندگی کے عام انداز سے بالکل مختلف تھا لیکن اسے محض مذاق یا افسانہ سمجھ کر نہیں ٹالا جا سکتا تھا، اس لئے اس نے طلسمی سپاہی کو یقین دلایا کہ وہ اس کی دوستی پر بھروسا کر سکتا ہے۔ وہ اس کی رہائی کے لئے جو کچھ ہو سکے گا اس سے دریغ نہ کرے گا۔
طالب علم کی زبان سے دوستی کی بشارت کے جواب میں سپاہی بولا "میں دوستی سے زیادہ کسی اور چیز کا قائل ہوں۔"

جاری ہے۔

مترجم : سید وقار عظیم

متعلقہ عنوانات