طلسماتی سپاہی کا قصہ:دوسری قسط


 فوارے پر پہنچ کر وہ اپنے لئے ایک گوشہ تلاش کر لیتا اور یہاں بیٹھ کر، اپنے گرد حلقہ بنا کر کھڑے ہو جانے والے مداحوں کو محبت کے گیت سناتا۔ ایک شام وہ اسی طرح مردوں اور عورتوں کے حلقے میں بیٹھا ستار بجا رہا تھا کہ اس نے ایک پادری کو اپنی طرف بڑھتے دیکھا۔

پادری کے قریب آتے ہی سب نے احتراماً اپنی ٹوپیوں پر ہاتھ رکھ کر اسے سلام کیا۔ بظاہر وہ کوئی بڑا آدمی معلوم ہوتا تھا اور اس کا چہرہ مقدس زندگی کا نہ سہی، پُرآسائش زندگی کا آئینہ دار یقیناً تھا۔ اس کا چہرہ بھرا بھرا سا  تھا اور اس پر خون کی سرخی چھلک رہی تھی۔ موسم کی حدت اور پیادہ پائی  کی مشقت سے اس کا جسم پسینے میں تربتر تھا۔ پادری سڑک پر سے گزرتے ہوئے تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد اپنی جیب سے کوئی سکہ نکالتا اور کرم گستری کی ایک خاص شان سے کسی گداگر کے ہاتھ پررکھ دیتا۔ یوں فقیروں پر جود  و  سخا کی یہ بارش کرتا پادری آگے بڑھتا اور لوگوں کی دعائیں لیتا رہا۔ "خدا پادری کو بڑی عمر دے اور جلدی بڑے پادری کا عہدہ  عطا کرے۔"
پہاڑی کے سنگلاخ راستے سے اترتے ہوئے وہ کبھی کبھی شفقت و نرمی سے اپنے ساتھ چلتی ہوئی حسین خادمہ کے ہاتھ کا سہارا لیتا۔ جس کے لئے بظاہر اس مہربان پادری کے خانہِ دل میں ایک خاص جگہ تھی۔ شفیق پادری نے فوارے کے قریب والے مجمعےپر شفقت کی نظر ڈالی اور اطمینان سے ایک پتھر کی تپائی پر بیٹھ گیا۔ خادمہ نے فوراً ہی ہیرے کی طرح چمکتے ہوئے شفاف پانی کا ایک گلاس اس کے ہاتھ میں دے دیا۔ پادری نے پانی ایک ایک گھونٹ کر کے مزے لے لے کر پی لیا اور ہر گھونٹ میں پہلے سے تلے ہوئے انڈےکا ایک خوش ذائقہ ٹکڑا منہ میں رکھ کر مسرور ہوتا رہا۔
ستار بجاتے ہوئے طالب علم حسرت سے دل ہی دل میں سوچنے لگا   کہ کتنا خوش نصیب ہے یہ مہربان پادری بھی۔


لیکن یہ قابلِ رشک مسرت اس کے نصیب میں نہ تھی۔ اس نے وہ سارے افسوں جن سے دہقان دوشیزاؤں کو بارہا اپنا مفتوں و گرویدہ بنا چکا تھا، آج بھی آزمائے لیکن پادری کے جیسی قابلِ رشک مسرت اس کے حصے میں نہ آئی۔ اس نے اپنے ستار کے تاروں کو کبھی اس مہارت سے نہ چھیڑا تھا اور کبھی اس کے سینے سے اتنے دل دوز نغمے نہ نکلے تھے، لیکن افسوس! اس کے حریف گاؤں کے پادری اور دہقانی دوشیزائیں نہیں تھیں۔

شفیق پادری کوغالباً موسیقی سے کوئی دلچسپی نہ تھی اور خادمہ نے ایک لمحے کے لئے بھی اپنی نظریں زمین سے نہ ہٹائیں۔ پادری نے پتھر کی تپائی پر بہت تھوڑی دیر بیٹھ کر پھر غرناطہ کا رخ کیا۔  خادمہ نے چلتے ہوئے ایک اچٹتی سی شرمیلی نظر طالب علم پر ڈالی۔

دونوں چلے گئے تو اس نے لوگوں سے ان کا اتا پتا پوچھا۔ پادری ٹامس کے غرناطہ کے پادریوں میں سے ایک تھا، پابندیِ اوقات کا مکمل نمونہ۔ اس کے سو کر اٹھنے، ناشتہ کرنے، کھانا کھانے، قیلولہ کرنے، بچوں کے معصوم کھیل کھیلنے، شام کو ٹہلنے، رات کو گرجے کے مخصوص حلقوں میں گپ بازی کرنے اور سونے کے اوقات مقرر تھے۔ وہ ان کی پوری پابندی کرتا اور اگلے دن پھر انہیں معمولات کے وظیفے کے لئے تروتازہ  اور بیدار ہوتا۔ سواری کے لئے اس کے پاس ایک چکنا چپڑا سُبک رو خچر تھا، اس کے پسندیدہ کھانے پکانے کے لئے ایک مستعد خادمہ،  اور  گھر کے کام کاج کے لیے وہی خادمہ  جو ابھی اس کے ساتھ تھی۔

طالب علم نے اس نے پادری کے مسکن تک پہنچنے کی کوشش کی، لیکن وہ اس جیسے کوچہ گرد طالب علموں کی رسائی سے باہر تھا۔ پادری کو اس سے کوئی دلچسپی نہ تھی اس لئے کہ اسے کبھی اپنی  محفل کو پُر رونق   رکھنے  کے لئے ستار کی تاروں کو چھیڑنے کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔

 آخر ہوتے ہوتے سینٹ جان کا تہوار آ پہنچا، جب غرناطہ کے غریب، مرد، عورتیں اور بچے دیہاتوں کا رخ کرتے ہیں، شام کا وقت رقص و نغمے میں گزارتے ہیں اور راتیں حدرۃ اور شنیل کے ساحلوں پر بسر کرتے ہیں۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ ،جنہیں اس وقت ،جب آدھی رات کو گرجا کی گھنٹیاں بجتی ہوں،  حدرۃ و شنیل کے بہتے ہوئے پانی میں منہ دھونے کا موقع مل جائے۔ اس لئے کہ اس خاص لمحے پانی میں چہرے کو حسین بنانے کی طلسمی تاثیر پیدا ہو جاتی ہے۔

کوچہ گرد طالب علم کی بےشغلی اسے بھی غرناطہ کے سیلانیوں کے ساتھ حدرۃ کی تنگ وادی میں لے آئی اور اس نے اپنے آپ کو بِلا ارادہ، الحمرا کے سرخ بُرجوں کے زیر سایہ پہاڑی کے دامن میں کھڑا پایا۔ دریا کی خشک ترائی، اسے اپنے حلقے میں لینے والی سنگلاخ چٹانیں اور ان چٹانوں کا حاشیہ بنانے والے مرغزار  ، ان آوارہ گردوں اور سیلانیوں کی گہما گہمی اور چہل پہل سے معمور تھے اور انگوروں اور انجیروں کے سائے میں ستار اور جھانجھ اور رقص کی جھنکار گونج رہی تھی۔
طالب علم حدرۃ کے تنگ پہل کے ایک بھدے اور بھاری پتھر کے سہارے کھڑا غم کے بھنور میں ہچکولے کھاتا رہا۔ اس نے اس ہشّاش بشّاش مجمع پر حسرت بھری نظر ڈالی، جس میں ہر نوجوان کے ہاتھ میں ایک  ساتھی کا ہاتھ تھا اور وہ اپنی تنہائی کے احساس سے غمگین، اُس چشمِ مست کے تصور میں غرق تھا، جس تک اس کی رسائی نہ تھی۔ اسے اپنا بوسیدہ لباس محبت کی راہ کا سب سے بڑا کانٹا نظر آ رہا تھا۔
اتفاق سے اس کی نظر ایک اور آدمی پر پڑ گئی، جو اسی کی طرح یکّہ و تنہا اس سے کچھ فاصلے پر کھڑا تھا۔ یہ  منفرد  و  تنہا شخص خاکستری داڑھی اور سنجیدہ چہرے والا ایک طویل قامت سپاہی تھا، جسے بظاہر انار کے درخت کے پاس سنتری بنا کر کھڑا کیا گیا تھا۔ زمانے نے اس کے چہرے کو سنولا دیا تھا۔

اس کے جسم پر ایک قدیم ہسپانوی زرہ بکتر، کندھے پر ڈھال اور ہاتھ میں نیزہ تھا اور وہ اپنی جگہ بت بنا کھڑا تھا۔ یہ بات طالب علم کے لئے باعثِ حیرت تھی کہ گو  کہ  اس سپاہی کے جسم پر ایسا عجیب لباس تھا ، لیکن گزرنے والوں میں سے کوئی اُس کی طرف دھیان نہ دیتا۔ وہ اس کے جسم کو چھوتے ہوئے آگے بڑھ جاتے تھے۔

(جاری ہے)

متعلقہ عنوانات