طلسماتی سپاہی کا قصہ:آخری قسط

وہ فولاد کے ایک بےحد وزنی صندوق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا ، جس میں کئی قفل پڑے ہوئے تھے اور جس پر ہر طرف عربی کی عبارتیں کندہ تھیں، "اس صندوق میں بےشمار سونے کے سکے، جواہرات اور بیش بہا زیورات بند ہیں۔ اگر تم اس طلسم کو توڑ دو جس میں مَیں قید ہوں تو اس خزانے میں سے آدھا تمہارا ہو گا۔"
"
لیکن میں اس طلسم کو کیسے توڑ سکتا ہوں؟"
"
اس کام کے لئے ایک عیسائی پادری اور ایک عیسائی دوشیزہ کی مدد درکار ہے۔ عیسائی پادری طلسم کے الفاظ پڑھنے کے لئے اور دوشیزہ اس آہنی خزانے کو داؤدی ستارے والی انگوٹھی سے چُھونے کے لئے۔ اور یہ کام آج ہی رات کو کرنے کا ہے۔ اس سنجیدگی اور اہمیت کا تقاضا ہے کہ یہ پاکیزہ صفت لوگوں کے ہاتھوں انجام پائے۔

 پادری کو صحیح قسم کا دین دار اور تقدّس کا مجسمہ ہونا چاہیے اور یہاں آنے سے پہلے ایک دن روزہ رکھنا چاہیے۔ اسی طرح دوشیزہ کے لئے بھی ضروری ہے کہ اس کی سیرت معصیت سے پاک ہو اور آسانی سے نفس پرستی کی شکار نہ ہو جائے۔ تمہیں ایسے دو آدمیوں کی مدد حاصل کرنی ہے۔ لیکن کام ایسا ہے کہ اس میں تاخیر کی ذرا بھی گنجائش نہیں۔ تین دن کی فرصت ہے۔ اگر تین دن کے اندر مجھے رہائی نہ ملی تو میری ایک صدی پھر اسی قید خانے میں بسر ہو گی۔"
گھبراؤ مت!" طالب علم نے اعتماد کے ساتھ جواب دیا۔ ایسا پادری اور ایسی دوشیزہ میری نظر میں ہے۔ لیکن اپنی مہم کی تکمیل کے بعد میں اس تہ خانے میں کیسے پہنچوں گا؟"
"
انگوٹھی تمہاری رہنمائی کرے گی۔ تہ خانے کا راستہ تمہارے لئے کھل جائے گا۔"
طالب علم تیزی سے تہ خانے سے نکلا۔ اس کے باہر نکلتے ہی سنگین راستہ بند ہو گیا اور زمین پہلے کی طرح ہموار ہو گئی۔
اگلے دن علی الصبح وہ پادری کی حویلی پہنچ گیا۔ آج اس کے قدم جرأت و استقامت سے اٹھ رہے تھے۔ آج وہ کوچہ گرد طالب علم کی حیثیت سے پادری کے پاس نہیں جا رہا تھا، جس کا مقسوم ستار بجانا اور دریوزہ گری کرنا تھا۔ آج وہ طلسمی دنیا کا سفیر بن کر اس کے پاس آیا تھا اور اس کے پاس زمین کے پُراسرار طلسمی خزانوں کی بشارت تھی۔

 اس سفارت کی تفصیل داستان میں بالکل نہیں بتائی گئی۔ سوائے اس کے ، کہ ایک راسخ العقیدہ  سپاہی کو بچانے اور ایک بیش بہا خزانے کو شیطان کے قبضے سے نکالنے کے خیال نے پادری کو فوراً اس مہم کے لئے راضی کر دیا کہ دولت کتنے غریبوں کی غریبی دور کرنے، کتنے کلیسا تعمیر کرنے اور کتنے دوستوں اور عزیزوں کو متموّل بنانے کے کام آئے گی!
رہی  خادمہ، تو وہ بھی خوشی سے اس مقدس مہم میں شریک ہونے پر راضی ہو گئی۔ اور اگر کبھی کبھی اٹھ جانے والی نظر پر اعتبار کیا جا سکے تو یہ کہنا بھی درست ہے کہ طلسمی دنیا کے سفیر کے لئے  اس کی آنکھوں میں اب تھوڑی سی جگہ بھی پیدا ہو گئی تھی۔
لیکن وہ روزہ جو پادری کو اس مہم کے سلسلے میں رکھنا تھا اس کے لئے بڑا عذاب ثابت ہوا۔ دو بار اس نے روزہ شروع کیا اور دونوں بار   ضرورتیں روح کے تقاضوں پر غالب آئیں۔ تیسرے دن بڑی مشکل سے اس نے اپنے اوپر یہ جبر گوارا کیا، لیکن سوال یہ تھا کہ طلسم ٹوٹنے تک  یہ سختی برداشت ہو سکے گی یا نہیں!
رات کا خاصا حصہ گزر جانے پر یہ قافلہ لالٹین کی روشنی میں بھٹکتا اور ٹھوکریں کھاتا نالے کے اوپر چڑھتا نظر آیا۔ خادمہ کے ہاتھ میں کھانے پینے کے سامان کی ایک ٹوکری تھی کہ  جب  روزے کا وقت مکمل ہو تو کچھ کھایا جا سکے ۔
داؤدی ستارے والی انگوٹھی کی تاثیر نے انہیں بُرج کے تہ خانے میں داخل کر دیا۔ طلسمی سپاہی آہنی صندوق پر ان کا منتظر بیٹھا تھا۔ اس کی ہدایت کے مطابق طلسم توڑنے کے سب رسمی مرحلے طے کئے گئے اور آخر دوشیزہ نے داؤدی ستارے والی انگوٹھی آہنی قفلوں سے لگا دی۔ مُہر لگتے ہی صندوق کا ڈھکن ایک جھٹکے کے ساتھ کھل گیا اور سونے کے سکوں، بیش بہا زیوروں اور نایاب جواہرات کی آب وتاب نے سب کی نظریں خیرہ کر دیں۔
"یہ ہے معاملے کی بات!" طالب علم خوشی سے چلا اٹھا اور جلدی جلدی اپنی جیبیں بھرنے لگا۔
"جلدی اور گھبراہٹ کی کوئی بات نہیں" سپاہی نے نرمی سے کہا "چلو! پہلے صندوق کو باہر نکالیں اور پھر اس کے حصے بخرے کریں۔"
اس مشورے پر سب آگے بڑھے۔ لیکن کام آسان نہ تھا۔ صندوق بےحد وزنی تھا اور صدیوں سے اس جگہ رکھا تھا۔ سب تو صندوق کو باہر نکالنے میں مصروف تھے اور نیک دل پادری ایک کونے میں بیٹھا دونوں ہاتھوں سے کھانے کی ٹوکری پر حملہ کر رہا تھا کہ کسی طرح دیوِ اشتہا کو تسکین دے جس نے اس کی انتڑیوں میں آگ لگا رکھی تھی۔ آن کی آن میں ایک فربہ بھنا ہوا مرغا اور ہسپانوی شراب کا ایک شیشہ آنتوں میں اتر گیا  ۔

یہ سب کچھ تہ خانے کے ایک گوشے میں بڑی خاموشی سے ہوا تھا لیکن کان اور زبان رکھنے والی دیواروں نے جیسے بڑی فتح مندی کے ساتھ اس کا پُرزور اعلان کر دیا  ۔  اس عجیب سی آواز پر سپاہی مایوسی سے چلا اٹھا۔ صندوق جسے آدھا اٹھایا جا چکا تھا ایک دھماکے کے ساتھ زمین پر گرا اور پھر مقفل ہو گیا۔ پادری، خادمہ اور طالب علم تینوں نے اپنے آپ کو غار سے باہر کھڑا پایا اور اس کی دیوار بادل کی گرج کے ساتھ بند ہو گئی۔ افسوس! نیک دل پادری نے اپنا روزہ وقت سے پہلے کھول لیا تھا۔
خوف و حیرت کا غلبہ کم ہوا تو طالب علم نے پھر بُرج کے تہ خانے میں گھسنے کا ارادہ کیا، لیکن حیف! خادمہ جلدی میں داؤدی ستارے والی انگوٹھی تہ خانے کے اندر ہی چھوڑ آئی تھی۔
مختصر یہ کہ گرجا کے جَرس نے بارہ بجائے اور طلسم کا اثر پھر سے شروع ہو گیا۔ ابھی بےچارے سپاہی کی قسمت میں ایک صدی کی قید اور لکھی تھی ۔ ایک صدی کی یا اس کے بعد آنے والی کئی صدیوں کی۔ وہ شاید آج بھی اسی تہ خانے میں قید ہو۔ محض اس لئے کہ نیک دل پادری نے  وقت سے پہلے روزہ کھول لیا تھا اور اپنے نفس کو شکست نہ دے سکا تھا۔ "افسوس! شفیق بزرگ، افسوس!" واپس آتے ہوئے طالب علم نے پادری کو مخاطب کر کے کہا۔ اور سر کو جنبش دیتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی ۔
طلسمی سپاہی کی داستان کا جتنا حصہ مستند سمجھا جاتا ہے وہ اس جگہ آ کر ختم ہو جاتا ہے۔ لیکن روایت نے اس میں اتنا اضافہ اور کیا ہے کہ طالب علم اپنی جیبوں میں اتنے سکے اور جواہرات بھر لایا تھا کہ اس کی باقی زندگی آسائش اور آسودگی سے گزری اور نیک نفس پادری نے اس غلطی کی تلافی کے لئے جو اس سے تہ خانے میں سرزد ہوئی تھی، اپنی  خادمہ کی شادی اس کے ساتھ کر دی۔
طلسمی سپاہی کی داستان غرناطہ کی داستانوں میں سب سے زیادہ دلچسپی سے بیان کی جاتی ہے، گو اس کی تفصیلات میں جابجا اختلاف ہیں۔ لیکن ایک بات جس پر عوام پوری طرح سے متفق ہیں یہ ہے کہ سینٹ جان کے تہوار کے دن وہ اب بھی حدرۃ کے پُل پر سنگین انار کے قریب کھڑا ہو کر سنتری کی خدمت سرانجام دیتا ہے۔ گو سوائے ان معدودے چند خوش نصیب لوگوں کے جن کے پاس  مخصوص طرز کی انگوٹھی ہو، کسی کو نظر نہیں آتا۔

مترجم: سید وقار عظیم

ختم شد

متعلقہ عنوانات