سجدے میں رہے کیوں کوئی بندہ مرے آگے

سجدے میں رہے کیوں کوئی بندہ مرے آگے
جو ہے مرے پیچھے وہی ہوتا مرے آگے


لگتا ہے کہ چھوڑ آیا ہوں منزل کہیں پیچھے
چلتا ہے مسلسل یوں ہی رستہ مرے آگے


ہم دو ہی مسافر ہیں خزاؤں کے ہوا میں
اک میں ہوں اور اک زرد وہ پتا مرے آگے


سجدے کا میں پابند ہوا ہوں یہاں آ کر
جھکتا تھا وہاں پر تو فرشتہ مرے آگے


میں زیب رہا ہوں کبھی یوسف کے بدن پر
کیا چیز بھلا دست زلیخا مرے آگے


اک ہاتھ میں کشکول ہے دوجے میں ترازو
ایسے میں بھلا کون ٹھہرتا مرے آگے


جینے کو تو کچھ اور بھی جی لیں یہاں لیکن
ہونا ہے یہی کھیل تماشہ مرے آگے


کچھ ایسے بھی سجدوں کا شرف ہے مجھے حاصل
کعبہ جو تھا پیچھے وہی کعبہ مرے آگے


اک خوف تھا رخسارؔ کہ غالب کی زمیں ہے
تھم تھم کے ہر اک شعر یوں اترا مرے آگے