کشمکش میں یوں مبتلا ہوں میں

کشمکش میں یوں مبتلا ہوں میں
روبرو تم ہو آئنہ ہوں میں


میری آنکھوں میں جو سما جائیں
صرف وہ خواب دیکھتا ہوں میں


اس سے کہہ دو صدا نہ دے مجھ کو
اب بہت دور آ گیا ہوں میں


دوستوں کو مرے شکایت ہے
جھوٹی باتوں پہ بولتا ہوں میں


کوششیں تو بہت میں کرتا ہوں
کیا کروں اور کیا خدا ہوں میں


تم مجھے کیوں نہیں سمجھتے ہو
اب تو آسان ہو گیا ہوں میں


دوست اور دشمنوں کے سبھی
تیر سینے پہ روکتا ہوں میں


ایک سچ بولنے کی عادت ہے
ویسے تو آدمی بھلا ہوں میں