ٹھیک ہے ان دنوں خود پر ذرا غصہ ہوں میں
ٹھیک ہے ان دنوں خود پر ذرا غصہ ہوں میں
پھر بھی اپنی سبھی حرکات کو تکتا ہوں میں
آنکھ کی میز پہ رکھا ہے مرا خواب سفر
اور بستر پہ شکن ڈال کے سویا ہوں میں
مصلحت ڈھونڈتے پھرتے ہو سبھی کاموں میں
تم کو بیمار نہیں لگتا تو اچھا ہوں میں
وقت وحشت مجھے پہچان نہیں پاتا کوئی
پھر بتاتا ہوں فلاں شخص کا بیٹا ہوں میں
تم جو چاہو تو مجھے پیڑ کا حصہ کر دو
ورنہ پیروں تلے روندا ہوا پتا ہوں میں
چند لمحوں کا دھواں عکس میں تبدیل ہوا
اور میں جھوم کے کہنے لگا دیکھا ہوں میں
سخت بیماری میں رکھتا ہوں خیال آپ اپنا
خود سے خود پوچھتا رہتا ہوں کہ کیسا ہوں میں