ٹھہراؤ آ گیا ہے کچھ ایسا زندگی میں
ٹھہراؤ آ گیا ہے کچھ ایسا زندگی میں
کہ بہتے بہتے جھرنا مل جائے جوں ندی میں
پوجا ہے اس نے تم کو چاہا نہ عاشقی میں
اب لطف کیا ملے گا اس دل کو بندگی میں
دل حسرتوں کا جمگھٹ پھر کیسا سونا پن یہ
دو چار پل کی خوشیاں آئیں تھیں زندگی میں
دل چھو گیا یہ ان کا ہونا پڑا پشیماں
کیسا اثر تھا آخر آنکھوں کی اس نمی میں
چاہو تو یاد رکھو چاہو اگر بھلا دو
احساس ایک سا ہے اس دل کو بے خودی میں
تنقید پر ہماری عظمیٰؔ اداس کیوں ہے
تم میں جو نقص ڈھونڈے شاید وہ تھے ہمیں میں