مسکراہٹ کے حسیں پھول کھلائے رکھیں

مسکراہٹ کے حسیں پھول کھلائے رکھیں
اپنا ویرانۂ دل یوں ہی بسائے رکھیں


سرخ رو ہو کے نہ دنیا میں کوئی جی پایا
پھر بھی یہ شوق کہ صورت کو سجائے رکھیں


آگ لگ جائے نہ دنیا میں شرر سے اس کی
شر کے بہکے ہوئے طوفاں کو دبائے رکھیں


خود فراموشی نے احساس دلایا اکثر
دل کے زخموں کو ہوا دے کے سکھائے رکھیں


بھول جائے نہ کہیں شکل یہ دل والوں کی
دیدۂ بینا کو آئینہ بنائے رکھیں


آج وہ آئے ہیں اپنی ہی غرض سے عظمیٰؔ
گھر کا دستور ہے مہماں سے نبھائے رکھیں