تیزی ترے مژگاں کی یہ نشتر سے کہوں گا
تیزی ترے مژگاں کی یہ نشتر سے کہوں گا
ابرو کی شکایت دم خنجر سے کہوں گا
ہم رنگ شمع عشق میں تیرے ہوں ولیکن
یہ سوز جگر آتش مجمر سے کہوں گا
دیکھا ہوں میں جس روز سے تجھ حسن کا جھلکا
ہے دل میں کبھی جامۂ انور سے کہوں گا
تنگی جو ترے پستہ دہن کی ہے سراسر
سربستہ سخن غنچۂ جوہر سے کہوں گا
سیراب نہ ہوں تجھ لب شیریں سے اگر میں
یہ تشنہ لبی چشمۂ کوثر سے کہوں گا
بوجھا ہے علیمؔ آج کہ ہے حسن کا تو گنج
یہ خوش خبری عاشق بے زر سے کہوں گا