تیری یادوں کی چلیں پروائیاں

تیری یادوں کی چلیں پروائیاں
درد نے پھر دل میں لیں انگڑائیاں


ہو مبارک تم کو بزم آرائیاں
راس ہم کو آ گئیں تنہائیاں


اب تو خوابوں میں بھی تم آتے نہیں
مجھ کو ڈستی ہیں مری تنہائیاں


یہ صلہ ہم کو وفا کر کے ملا
ہر طرف ہونے لگیں رسوائیاں


زخم دل کے پھر ہرے ہونے لگے
یوں ہوئیں دل میں چمن آرائیاں


غم ہی غم مجھ پر مسلط ہو گئے
جب ترے آنگن بجیں شہنائیاں


ان کے وعدے پر بھروسہ کر کے میں
سہہ رہا ہوں ہجر کی تنہائیاں


مجھ کو میرے حال پر اب چھوڑ دے
دیکھ لیں تیری کرم فرمائیاں


کیوں کسی کو بے سبب الزام دوں
تھیں مقدر میں مرے رسوائیاں


آسماں سے ٹوٹ کر تارے گرے
لیں مشیت نے عجب انگڑائیاں


جب تخیل میں مرے آتے ہیں وہ
مسکراتی ہیں مری تنہائیاں


ہم نے سمجھایا بہت لیکن سراجؔ
تو نہ سمجھا پیار کی گہرائیاں