تیری یادیں تیرے خیال
دل کو وہم و گمان ہوتا ہے
جیسے آواز تم نے دی مجھ کو
روح پر دے رہو ہو تم دستک
چونک جاتی ہوں میں اچانک سے
بھاری ہے صبح شام گم سم سی
رات بھی خوفناک لگتی ہے
سونا پن اور صرف مایوسی
چیخ اٹھتی ہے میری خاموشی
دیکھتی رہتی ہوں وہ تصویریں
قید اک عمر جن میں ہے اپنی
نقش رہ رہ کے کچھ ابھرتے ہیں
رقص ماضی کا جاری رہتا ہے
وہ جو گزرے تھے ساتھ میں لمحہ
میری تنہائیوں پہ حاوی ہیں
چند الجھے ہوئے سوال لیے
تیری یادیں ترے خیال لیے
رات دن رونقیں تھی محفل تھی
ایک ایک لمحہ ایک منظر تھا
آج کیسا مقام آیا ہے
زندگی تھم گئی یہاں آ کر
ساری دلچسپیاں تمام ہوئی
ہو گئے پھیکے رنگ دنیا کے
سارے بدلے ہوئے نظارے ہیں
ہم بھی قسمت سے کیسا ہارے ہیں