تیری محفل سے اٹھ کے دیوانے
تیری محفل سے اٹھ کے دیوانے
چل دئے پھر کہاں خدا جانے
کس کو معلوم تھا خوشی کے لئے
درد و غم بھی پڑیں گے اپنانے
جن سے مدت کی تھی شناسائی
آج وہ بھی بنے ہیں بیگانے
یہ فسانے کبھی کے مٹ جاتے
بات رکھ لی مرے مسیحا نے
جن کا غم کے سوا کوئی نہ ہوا
وہ خوشی کو چلے ہیں اپنانے
پھر ہوا آج مہرباں ساقی
پھر چھلکنے لگے ہیں پیمانے
کتنی محتاط تھیں مری نظریں
بن گئے پھر بھی کتنے افسانے
نہ ملا اے اثرؔ وہ بت اب تک
گو ہزاروں ملے صنم خانے