تیرا نام محبت ہے

مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسےخیالات کی پرچھائیاں میرے تعاقب میں ہیں ۔ میرا وجود دھند کے کہرے میں عافیت کے لمحات ڈھونڈھ رہا ہے ۔ آج اسقدر میرا دل چاہا کہ اس ہی کہرے میں سے میرے والدین نمودار ہوں اور مجھے اس دائمی کرب سے نجات دلانے کی سعی کریں ۔
خیالات کا تسلسل ایک بار پھر جڑا ۔ اور مجھے بارہا اپنی بیٹی کا خیال پریشان کرتا رہا ۔ طلاق کے حوالے سے اسکی ماں میرے علم میں ہربات لاچکی تھی ۔۔۔ اس بےکیف صورتحال میں میرے شب و روز بہت مغموم گزررہے تھے ۔۔۔ لیکن میں باپ تھا اور اپنی بیٹی کو اسکی ماں سے زیادہ جانتا تھا ۔۔۔ وہ کتنی معصوم اور خوبصورت دل کی مالک ھے شائد ہی میرے بیٹوں میں کسی کا دل اس جیسا ہو ۔۔
شادی ایک خوبصورت بندھن ہے میں نے اپنی بیٹی کی شادی ایک بہتر خاندان کے پڑھے لکھے لڑکے سے کی تھی ۔ مجھے علم نہیں تھا کہ میرا اس خاندان کے اچھے ہونے پر سے یقین ایک دن ٹوٹ کر بکھر جائیگا ۔ یقین کا ٹوٹنا کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے کہ میری معصوم بیٹی خوشیاں دینے کے عوض درد لے کر لوٹےگی ، محبت اعتماد اور وفاداری کے قتل کے ساتھ ۔
ایک لمحے کے لیئے میری آنکھوں میں ماضی گھوم گیا ۔ مہوش چھوٹی سی تھی ۔ اسکا مخملی لمس بٹیا کے ساتھ گزرے وقتوں کی یادوں کو اور بھڑکا رہا تھا۔ خیالات کے اسی تسلسل میں درد اشکوں میں ڈھل کر میرے رخسار پربہنا شروع ہوگئے تھے۔


سرشام آنگن میں ہم دونوں میاں بیوی کسی گہری سوچ میں غرق تھے ۔۔۔ روزینہ نے سکوت توڑتے ہوئے مجھ سے کہا کیا تازہ ہوا کے لیئے کیواڑھ کھول دوں ؟ میں ایک دم چونکا اور آہستہ سےکہا ہاں کھول دو اس بنا شائد تازہ ہوا کے ساتھ مسرتوں اور نشاط کے نرم و گداز جھونکے بھی ہمارے سونے آنگن میں تھوڑی دیر ہی قیام کرلیں ۔۔۔
میرے لفظ بے بس تھے ۔۔۔ اور وہ بنا قوت کے میرے منہ سے پھسلے جارہے تھے۔ شام رات میں ڈھل گئی اور بھیگتی رہی۔ روزینہ کی باتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ میں خاموشی اوڑھے گھونٹ گھونٹ اپنی بیوی کے خیالات پیتا رہا۔ ہرطرف رات کی سیاہی پھیل چکی تھی۔ جبکہ نصف شب کا چاند آسمان پربیٹھا اپنی مسکراہٹ ہر سو پھیلارہا تھا ۔
عظیم محبت کے شجر پر ہمیشہ رنگ برنگ پھول نہیں کھلتے ہیں ۔۔ پت جھڑ ان پر بھی آتی ہے ۔۔ روزینہ نے مجھے دلاسہ دیتے ہوئے کہا ۔۔۔ میں نے اثبات میں سر کو جنبش دی ۔۔۔ اور قدرے پرسکون ہوگیا ۔۔ اتنی گہرائی ہے تمہارے خیالات میں میری آواز میں پوشیدہ حیرت کو محسوس کرکے روزینہ خوش ہوگئی تھی۔ہماری بیٹی بہت باہمت ہے ۔ وہ بہت جلد صحت یاب ہوگی ۔۔ میں بڑبڑ ایا ۔۔
سرمئی موسم رخصت ہوچکا تھا اوربہار کی تازہ ہوا کے جھونکے لہراتے سبزہ کے ساتھ دل میں امید کی کرنیں پیدا کررہے تھے ۔ میں اپنی بیوی کے ساتھ اپنی بیٹی کو ہسپتال سے گھرلانے کے لیئے تیار تھا ۔ ہسپتال ہمارے گھر سے کچھ ہی کوس دور تھا ۔


میری بیٹی گذشتہ چند ہفتوں سے سینٹرل ہسپتال میں دماغی امراض کے وارڈ میں زیر علاج تھی ۔۔۔ آج وہ ہسپتال سے ڈسچارج ہورہی تھی۔ پھول کی پتیوں سے بھی زیادہ نازک اور چاند کی نرم روشنی سے زیادہ شفاف میری لاڈلی زندگی کی دھوپ چھاوں برداشت نا کرسکی تھی جو قدرت کی آزمائش کے مراحل سے گزررہی تھی ۔۔۔

راستے میں مجھے بیشمار جنگلی پھول دکھائی دئیے گاڑ ی روکو روزینہ میں نے اپنی بیوی کو آہستگی سے کہا ۔۔۔ آپ بھی اپنی بچی سے کم نہیں عظیم سید جو پھولوں کو دیکھ کر مچل جاتی ہے ۔۔۔ روزینہ نے گاڑی سڑک کے کنارے لگاتے ہوئے تبسم بھرے لہجے میں مجھ سے کہا ۔۔۔میں نے جلدی جلدی نیلے اودے بنفشی اور جامنی پھولوں کو توڑ کر انکا ایک گچھا سا بنالیا اور جلدی سے گاڑی میں سوار ہوگیا ۔۔۔


چند لمحوں بعد میں اپنی بیٹی کے روم میں تھا ۔۔۔ والدین کو دیکھ کر اسکی آنکھیں روشن ہوگئیں ۔۔۔ ہمیں دیکھتے ہی کہنے لگی بہت شدت سے آپ دونوں کا انتظار کررہی تھی یہ سنتے ہی میں نے جلدی سے پھولوں کے گلدستہ کو اسکی جانب بڑھایا ۔۔۔ اس نے مسرت آمیز چہرہ میری جانب کیا محبت سے پھولوں کا گلدستہ میرے ہاتھ سے لیکر اس میں لگے پھولوں کی خوشبو سونگھنے لگی ۔۔۔ بابا یہ بہت خوبصورت پھول ہیں بہت تازہ اور موسمی ۔ وہ کھل کھلائی ۔۔۔ پھول اسکے سرخ عارض اور گلابی ہونٹوں کی دمک سے چمک اٹھے تھے ۔۔۔

ہسپتال کا کمرہ پھولوں کی خوشبو سے مہک اٹھا تھا ۔۔۔ مجھے ایک لمحے کے لیئے ایسا محسوس ہواکہ ایک عارضی اور عبوری فردوس کے جزوی قیام کےلیئے مسرتوں نے اس چھوٹے سے کمرے کو اپنے حصار میں لے لیا ہو ۔ پھربیٹی کو قدرے مطمئن پاکر کہا کہو بیٹی میں اس خوبصورت پھولوں کے گلدستے کو کیا نام دوں ؟

میرے سوال کے جواب پر میری بیٹی نے ایک لمحے کی بھی تاخیر کیئے بغیر کہا بابا اس کا نام محسن شیرازی رکھ دیں روشنی کا ایک چھناکہ میرے ذہن کے تاریک گوشوں کو روشن کرگیا ۔ محبت کے نازک جزبات پر انسانی جبر کے نفسیاتی وار شکست کھاچکے تھے ۔ محبت ایک بار پھر بھرپور توانائی کے ساتھ زندگی میں شامل ہوچکی تھی ۔ وہ کائنات کی تمام خوشیوں کو میرے سابقہ داماد کا نام دینا چاہتی تھی ۔۔۔۔ پھر میں نے ایک فیصلہ کرلیا کہ زندگی کے آخری سانسوں تک اپنی بیٹی کو اپنی شفقت اور اعانت کے سائے تلے رکھونگا۔۔۔
ہسپتال کی اونچی عمارت سے پھسلتی شام سبز گھاس پر آکر ٹھہر گئی تھی۔ ماحول کی خاموشی اس بات کا سندیسہ تھا کہ زندگی نے اپنا رخ بدل لیا ہے۔ اگلے ہی لمحے ہم تینوں ہسپتال سے نکلے اور اپنے گھر کی طرف روانہ ہوچکے تھے ۔۔۔ اس اثنا سینٹرل ہسپتال دھند کے دامن میں لپٹ کر کہیں غائب ہوگیا تھا ۔