اختری بیگم

منور میاں آج شب نواب تیمور کے ہاں ٹھمری پر رات گئے رقص و سنگیت کا پروگرام ہے تم اپنے طبلے سازیندوں کے ساتھ سر شام ہی میری حویلی پر آجانا ہم ساتھ ہی نواب تیمور کے بنگلے پر ہولیں گے ۔۔ کوئی خاص پارٹی ہے کیا منور خان نے استہزائیہ انداز میں پوچھا ۔۔۔ خاص ہی سمجھو ان کی بہو نے کئی سالوں کی شرمندگی کے بعد پچھلے ہفتے ایک چاند سا لونڈا جنا ہے وس کی خوش میں تقریب رکھی ہے نواب نے اختری بیگم نے پان چباتے ہوئے طبلہ نواز کو جواب دیا ۔۔۔ پھر اختری بیگم نے اپنی مدھر آواز میں ہلکا سا گنگنایا اور فون رکھ کر سنگھار کا سامان اٹھایا اور غسل خانے کیجانب بڑھ گئیں ۔ سورج کی روشنی حویلی کی دیواروں سے پھسل کر تاریکی میں گم ہورہی تھی ۔ اور حویلی میں پام کے درختوں سے چھنتی ہوا کی سائیں سائیں اختری بیگم کی جواں تنہائی کا مژدہ سنارہی تھی ۔
پینتالیس سالہ اختری بیگم اپنے پرکھوں کی حویلی میں بیوگی کی ایام گزاررہی تھیں ۔ گورا رنگ گھنگھریالے بال تیکھا قد اور سریلی آواز پر تھرکتے جسم والی اختری دس سال پہلے نواب کانپور کی اچانک رحلت کے بعد بیوہ ہوکر اپنے باوا کے گھر دلی میں منتقل ہوگئی تھی ۔ ورثے میں باپ کی اکلوتی اولاد ہونے کے وجہ سے پوری حویلی معہ سازو سامان اختری بیگم کا کل اثاثہ تھی ۔
شام کے سائے گہرے ہوتے جارہے تھے ۔ اختری بیگم کی تیاریاں نواب تیمور کے ہاں برپا محفل کی جان بننے کے لیئے جاری تھیں ۔ وہ سنگھار میز کے سامنے اپنے گیسو سنوار رہی تھی کہ اچانک صدر دروازے کی گھنٹی پوری حویلی میں گونج اٹھی ۔۔۔


اختری نے فوری اپنے پیروں کی پائل اتاری اور دروازے کی طرف بڑھ گئیں ۔۔۔ کھچڑی زدہ بال خستہ حال بڑھی ہوئی شیو کے ساتھ بنے میاں ہاتھ میں کپڑوں کا تھیلا اٹھائے اختری بیگم کے دروازے پر حیران پریشان حالت میں کھڑے دیکھائی دئیے تو اختری بیگم کے منہ سے بے ساختہ ہائے بنے میاں نکلا ۔۔۔ یہ تم نے کیا حالت بنارکھی ہے ۔۔ چلو جلدی سے اندر آو ۔
بنے میاں جنکا اصل نام برجیس مرزا تھا اختری بیگم کے پھپھی زاد تھے جو الہ آباد میں رہائش پزیر تھے ۔ دلی جب بھی آتے تو اختری بیگم کے ہاں ہی ٹہرتے ۔ عمر میں اختری بیگم کے ہی برابر تھے ۔ بظاہر انتہائی مہذب، خوش اخلاق، اور تعلیم یافتہ دکھائی دیتے تھے مگر دماغ سے کبھی کبھی غیر حاضربھی رہتے تھے ۔ جسکی وجہ بچپن میں آم کے درخت سے اوندھے من ہہ گرے تو سر اور من ہہ پر چوٹی ں آئی ں تھیں ۔ چہرے کی چوٹیں تو ٹھیک ہوگئیں تھیں مگر سر کی چوٹ اکثر بنے میاں کی خجالت کا باعث بنتی ۔
ویلویٹ کے صوفہ پر ادھ من ہہ پڑے بنے میاں تھکاوٹ سے بدن چورنہایت دھیمی آواز میں بولے اختری کہاں کی تیاری ہے ۔۔۔ اس سے پہلے کہ اختری بیگم لب کشائی کرتیں خو د ہی من ہہ سے پھوٹن ے لگ ے تم ہے تو کلاسیکی موس قی پر بڑی دسترس ہے دادرا - ٹھمری - خیال - دھرپد - ترانہ - تروٹ ہوری - غزل کیا نہیں جانتیں تم ۔


اختری نے ایک دلآویز مسکراہٹ اور اس ادا سے بنے میاں کی طرف دیکھا کہ بنے میاں کا دل حلق میں آگیا ۔۔ لکشمی سہگل کی بہن مرنالی سارابھائی کے نقش قدم پر چلتی تم نے آخر اس شہر کے نوابوں کے دل میں ڈیرہ جماہی لیا نا ۔ بنے میاں نے ایک زوردار طنز اختری بیگم کی طرف اچھالا تو اختری کا رنگ زرد ہوگیا ۔ اختری ایکدم تڑخ کر بولی دیکھو بنے میاں میری گزر اوقات اسی پر ہے ۔ یہاں کوئی کسی کو دیکھنے والا نہیں ۔ اور تم تو جانتے ہی ہو میرے پلے سوائے اس حویلی کے اور دھرا ہی کیا ھے ؟ ۔۔۔۔ تم نہادھوکر فریش ہو جاو میں کھانا گر م کردیتی ہوں ۔ سفر کی تھکن سے تمہارے دماغ کی چولہین ہل گئی ہیں اور بد ن اکڑ گیا ہے ۔ نہا دھو کر کچھ چپاتی نما پیٹ میں جائگا تو دماغ بھی ٹھکانے آجائیگا ۔

جیسے جیسے چاند حویلی کی در و دیواروں پر اترنا شروع ہوا اختری بیگم کا بناو سنگھار اسے بنو بناچکا تھا ادھر بنے میاں بھی نہادھو اور برسوں کا میل اختری کے جھانوے سے صاف کرکے تازہ دم دکھائی دیتے تھے ۔ کئی دنوں کی بڑھی داڑھی صاف ہوچکی تھی اور اب اصل شکل صورت نظر آنے پر بنے میاں سفید کرتہ پائجامے میں برجیس مرزا لگ رہے تھے ۔
دونوں کی نظریں دوچار ہوئیں اختری نے کمریا لچکائی تھوڑا سا بل کھایا اور بنے میاں کا سیاہ بالوں سے بھرا ہاتھ پکڑ کر چکن کے پردہ کھسکایا تو سامنے کھانے کی میز پر گرم گرم کوفتے اور چپاتیاں بنے میاں کی بھوک مٹانے کے لیئے منتظر تھیں ۔ اختری مرد کے پیٹ اور آنکھوں کی بھوک مٹانے کی ماہر تھی ۔ اور اسکی ٹائمنگ بھی جانتی تھی ۔ اپنے پروگرام کو کسی تاخیر سے بچانے کے لیئے اختری کی ڈپلومیٹک حسیں اسے غیر ضروری طور پر متحرک کردیتی تھیں ۔ باوجود اس
حقیقت کے ایک خاندانی پس منظر ہونے کے باعث وہ بنے میاں کی منتقم مزاجی سے بھی آگاہ تھی ۔ لیکن اپنی ذات کے حوالے سے برجیس مرزا کو وہ ایک دائرہ تک محدود رکھتی تھی ۔


اختری تیرے ہاتھ میں جادو ہے ۔ کیا کوفتے پکائے ہیں تونے ۔۔۔ لاجواب کوفتوں کے بیچ میں باریک کٹی ہوئی ادرک، تلی ہوئی پیاز، ہرادھنیہ اور باریک کٹی ہوئی ہری مرچ نے کوفتوں کا لطف دوبالا کردیا ہے ۔۔ اور گرم مصالحوں کا استعمال تو بالکل پرف یکٹ ہے بنے میاں نے تیزی سے لقمے لیتے ہوئے اختری کو مخاطب کیا اور ترچھی نظروں سے اسکے سراپے کا جائزہ بھی لیتے رہے ۔

بنے میاں تم اس وخت دلی میں ہو ۔۔ تمے تو پچپن یاد ہوگا جب چھلکارہ کٹورہ بجاتا چلا آ رہا ہوتا تھا ،میاں آب حیات ہے شربت نہیں۔ ککڑیاں سجائے خوانچے والا آواز لگاتا تھا لے لو بھائی لے لو، لیلی کی انگلیاں، مجنوں کی پسلیاں۔ گرما گرم پکوان خوانچوں میں دھرے ہیں۔ لونگ چڑے، قلمی بڑے، تئی کے کباب، کلیجی کی سیخیں۔ گاہک پر گاہک ٹوٹا پڑتا تھا ۔ افف کیا سماں ہوتا تھا ۔ کھائے نہ کھائے خوشبو سے دل سیر ہو جائے۔ اگر نہاری بارہ مصالحے کی چاٹ تھی تو حلیم تین ہانڈی کا پکوان۔ شاہی حلوائی بہت نفاست سے ادرک گاجر کے حلوے بناتے ۔ بریانی زردے کی دیگیں کھلیں اورباراتی کھانوں پر ٹوٹ پڑتے ۔ اور منجھلے ابا کے گھر کیا پکوان پکتے تھے۔ دس گھر انکے کھانوں کی خوشبو جاتی تھی ۔ قورمہ کے ساتھ شیرمال ۔ تافتان ۔ روغنی نان ۔ کیا لطف دیتے تھے ۔ لیکن ہائے اب وہ نزاکت اور نفاست کھانوں میں کہاں ۔۔۔ اختری اور بنے میاں یادوں اور روائی تی کھان وں ک ے بحر ان میں مبتلا تھے اور ادھر ۔۔۔

شام کا آنچل اپنے پہلو سے شب کی نوید لیکر آیا تو اختری کو فوری منورمیاں اور ہم نواوں کا خیال آیا ۔۔ اس اثنا حویلی کے باہر موٹر کار رکنے کی آواز آئی اور منور میاں اپنی بھاری بھرکم توند کے ساتھ حویلی میں داخل ہوچکے تھے ۔۔ دالان سے گزرکر برآمدے میں داخل ہوئے اور اسکی پاٹ دار آواز گونجنی شروع ہوگئی اختری ارے او اختری جلدی سے نکل لو مجھے موسم کے تیور کچھ بگڑے دکھائی دیتے ہیں ۔ اس سے پہلے کے برکھا برسے اور ہمارا پروگرام چوپٹ ہوجاوے نواب تیمور کے بنگلے پر ڈیرہ جمالیں ہم ۔۔


بنے میاں کی موجودگی کو پردوں میں چھپانے کے لیئے اختری بیگم اندر ہی سے چلائیں منو میاں باہرے کو ہی رہنا میں اپنی انگیا بدل رہی ہوں تم تھوڑی دیر برآمدے میں پڑے کین کے صوفوں پر آرام کرو میں کپڑے پہن کر آتی ہوں ۔۔۔
اختری بیگم تیری تیزیاں جاتی نہیں بنے میاں کیا کروں تم مردوں ہی نے یہ سب کچھ سیکھایا ہے ۔ ورنہ میں تو معصوم سی عورت تھی ۔ برجیس مرزا کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ دیکھ کر اختری نے جھٹ سے پہلو بدلہ ۔۔ بنے میاں میری واپسی رات کے پچھلے پہر ہوگی تم بالائی کمرے میں آرام سے سوجانا اور تمام دروازے پچھی بند کرنا میں حویلی کے صدر دروازے کو تالا لگا کرجاونگی ۔

اختری کے مانوس سانسوں کی مہک برجیس مرزا کے حواسوں کو بے قابو کررہی تھی ۔ وہ بمشکل اپنے جزبات پر قابو پارہے تھے ۔ اختری نے فوری کچھ بھانپا اور تیزی سے وہاں سے کھسک لی ۔ سرسبز لان سے گزرتی ہوئی موٹر کار میں سوار ہوئی اور نواب تیمور کے بنگلے کی جانب روانہ ہوگئی ۔


حویلی کے چاروں طرف سبزہ زاروں میں سے ہوتی ہوئی اختری اور ہمنواوں کی موٹر کار تیزی سے نواب تیمور کی منزل کی جانب رواں دواں تھی ۔ ہلکی ہلکی بونداباندی نے موسم قدرے سرد کردیا تھا ۔ شام اپنے جوبن پر پہنچ چکی تھی ۔ رات گئے طعام میں انواع و اقسام کے کھانوں کی لذت اور خوشبو نے نواب تیمور کے بنگلے میں ایک عجیب سے مہک پیدا کررکھی تھی ۔ بنگلے کی وسیع چھت پر بیچوں بیچ دبیز قالین پر اختری کا تھرکتا جسم اور ٹھمری کی گونج طبلے کی تھاپ اور سازندوں نے ایک سماں باندھ دیا تھا ۔ اختری کو اپنی آنکھوں پر بٹھانے والے نواب تیمور کے مراسم کوٹھوں سے لیکر ایوان اقتدار تک جاتے تھے ۔ رات اختری کی سریلی آواز اور کلاسکی رقص میں ڈھلتی رہی ۔ پھر نصف شب میں اختری ارباب اختیار کو جو شراب کے نشے میں مست تھے نواب تیمور کے ایک اشارے پر بھیڑ دی گئی ۔۔۔

ادھر حویلی میں برجیس مرزا اپنے آپ کو تنہاہ پاکر حویلی کا مالک سمجھ رہے تھے ۔ انھوں نے گھوم پھر کا پوری حویلی کا جائزہ لیا حیرت سے نایاب سامان کا جائزہ لیتے رہے اور آخر کار تھک ہار کر بستر پر جاگرے پھر کروٹیں بدلتے بدلتے انٹا غفیل ہوگئے ۔ صبح کاذب کے وقت اختری اپنی حویلی میں داخل ہوئی اور بالائی منزل پر بنے میاں کے برابر والے کمرے میں جاکر بستر پر نڈھال ہوکر گر گئی ۔ سحر ہونے سے کچھ ہی دیر پہلے بنے میاں کی آنکھ کسی کے رونے سے اچانک کھل گئی ۔ وہ اندھیرے میں ٹٹولتے ٹٹولتے کمرے سے باہر نکلے اور برابر والے کمرے میں جا پہنچے ۔۔۔ جہاں اختری بیگم زاروقطار رورہی تھیں ۔ اسکے بال بکھرے ہوئے تھے اور چہرہ بدحواس تھا ۔ اختری نے بنے میاں کو اپنے کمرہ میں پاکر اشارہ سے باہر جانے کا کہا اور صبح ناشتے پر ملنے کا کہہ کر اندر سے دروازہ بھیڑ دیا۔

بنے میاں ایک قلاش انسان تھے اور حیلے بہانے سے دلی کی چکر کاٹتے رہتے تھے ۔ اس دفعہ اختری کی بے بسی دیکھ کر دل ہی دل میں کہنے لگے کہ میرا وار اب کامیاب جائگا ۔ دوپہر گیارہ بجے دونوں ناشتے کی میز پر آمنے سامنے بیٹھے ایکدوسرے کی شکل دیکھ رہے تھے ۔۔ پھر خود ہی خاموشی کو توڑتے ہوئے بنے میاں بولے اختری مجھے سے اب تیری تنہائی اور ذہنی تکلیف دیکھی نہیں جاتی ۔ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں تم سے بیاہ رچا کر ایک نیک نامی کی زندگی تم کو دیدوں تاکہ تمہاری آخرت سنور جائے اور مجھے بھی ثواب ملجائے ۔۔۔۔ اختری مرد کے ہر ہر وار سے بخوبی آگاہ تھی ۔ اختری نے برجیس مرزا کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا ۔ اور مسکرا کر پلو سے اپنا چہرہ چھپالیا ۔

منور میاں آنے والی جمعرات کو میرا اور بنے میاں کا عقد ہے ۔ تم ہمنواوں اور قاضی کے ساتھ سر شام میرے گھر آجانا ۔ شب براتی کو میں نے قورمہ بریانی تافتان اور کھیر بنانے کا کہہ چکی ہوں یہ کہہ کر اختری نے فون رکھا اور سب سے خوبصورت شرارہ اپنے کپڑوں میں سے نکال کر عقد والی دن کے لیئے چن لیا ۔۔۔


حویلی میں لگے پام کے درختوں کی سائیں سائیں اب خوشی کے ترانوں میں بدل گئیں تھیں ۔ اختری اور برجیس مرزا کا عقد ہوچکا تھا ۔ رات کے سناٹے میں حویلی میں دو دھیمی دھیمی آوازیں وقفہ وقفہ سے ابھرتیں اور پھر خاموشی چھاجاتی ۔۔۔
اختری تمہاری حویلی دوکرو ڑ کی مالیت س ے کم نہیں ہوگی ۔ جس میں تمہار قیمتی سامان پچاس لاکھ کی مالیت کے لگ بھگ ہے ۔ بنے میاں نے بڑے پیار سے اختری کے رخساروں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ۔۔ تم نے بڑا مال کمایا ہے ۔۔۔ پھر خود ہی کھلکھلا کر ہنسنے لگے۔
ہاں بنے میاں میں نے بہت مال کمایا ہے اور مال کے ساتھ ساتھ ثواب کمانے کا بھی انتظام پہلے ہی کرلیا ہے ۔ ساری زندگی قحبہ خانے کی طرح بسر کی ہے لہذا آخرت کا سامان بھی کرلیا ہے ۔۔ اختری نے بنے میاں کے سینے کے بال نوچتے ہوئے کہا ۔۔۔ اسی اثنا بنےمیاں کو زرا سی تکلیف محسوس ہوئی کہن لگے ثواب کمانے کا انتظام ۔۔۔ وہ کیسے ؟ اختری جھٹ سے پلنگ سے کودی اور الماری میں سے ایفی ڈیوٹ کی کاپی نکال کر دو منٹ میں سب کچھ پڑھ کر بنے میاں کو سنادیا ۔ بنے میاں نے جھٹ سے قانونی کاغذ اختری سے چھینا اور جلدی جلدی خود ہی پڑھنے لگے ۔۔ ابھی وہ پڑھ ہی رہے تھے کہ اختری بیگم بنے میا ں کے سینے پر کو د پڑی ۔۔۔ بنے میاں کے منہ سے بے ساختہ آہ نکلی اور بیدردی سے انھوں نے بھی اختری کا سینہ دبوچ لیا ۔۔۔ پھر آہ سے آہ ملی اور اختری بنے میاں کی بنو بن گئیں ۔۔۔