تعاقب

وہ خوشبووں کی سرزمین تھی ۔ جہاں فکرونشاط کے گلاب کھلتے تھے ۔ مگر یہ ہی گلاب ریاستی طاقت کے مرکزی دھارے کو کھٹکتے بھی تھے ۔ پھر ایک دن جنگ کا آغاز ہوگیا ۔ جنگ کے نا ختم ہونے والے سلسلہ نے زندگیوں کو نفسیاتی سطح پر اپاہج کرکے رکھدیا ۔ لمحہ بہ لمحہ جنگ کا دائرہ وسیع تر ہوتا گیا ۔ جبکہ داخلی اور خارجی سطح پر اسکے غیر فطری اثرات نے انسانوں کے اعصاب شل کرکے رکھد ئیے تھے ۔ ایک غیر محسوس طریقے سے جنگ کی بڑھتی سمٹتی تشکیل کا دائرہ نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں سے نکل کر ثقافت و سماج کے غیر متحارب خطوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا ۔ جس نے معاشرت کی قوی بنیادوں میں زلزلہ پیداکردیا ۔


وہ جنگ کے جبری مسلط کئے جانے اور اسکی طوالت کے غیر فلسفیانہ جواز کے خلاف سینہ سپر تھا ۔ وہ رزم گاہوں میں بھڑکتی آگ کو بجھانا چاہتا تھا ۔ تاکہ زندگی خوف کی عارضی پناہ گاہوں سے نکل کر تابناک سورج کا ازسر نو حصہ بن سکے ۔ مگر عقبی دیوار کے اس پار دھندزدہ علاقے میں جنگ میں بطور ہتھیار استعمال ہونے والے کتوں کے بھونکنے کی مسلسل آوازوں نے اسے جنگ کے میدان سے بھگانے کی ٹھان رکھی تھی ۔


موت اونچے مچانوں پر گھات لگائے زندگی اور آزادی کے خوابوں کو روندھنے کے لیئے ہمہ وقت تیاررہتی تھی ۔ جبر کے اس خوف تلے زندگی کا رومانس روپوش تھا ۔ وہ ان کتوں سے ھنستی بستی زندگیاں بچانا چاہتا تھا ۔ جو زندگی کو موت کی مفرور ملازمہ سمجھتے تھے جو زیست کے تعاقب میں لمبے لمبے دانت نکوسے ہر طرف گھوم رہے تھے ۔


ٹھنڈ اسکے استخوانوں میں گھس کر اسے نڈھال کررہی تھی اسے خوف تھا کہ شدید سردی اسکے عزم کو شکست نا دیدے اور یوں جیتی ہوئی بازی اس سے چھن نا جائے ۔ یکلخت اسے محسوس ہوا کہ سرد حالات اسکا حوصلہ توڑنا چاہتے ہیں ۔ وہ اٹھا اور ایک نئے عزم کے ساتھ اندھیرے میں ان کتوں کے خوف سے جو اسکا پیچھا کررہے تھے بھاگتے بھاگتے شہر پناہ کی سب سے بلند و بالا عمارت کی سیڑھیوں پر ڈھیر ہوگیا ۔


اسی اثنا عمارت کا آہنی دروازہ ایک غیر مانوس چرچراہٹ کی آواز کے ساتھ کھلا پھر ایک محبت بھری آواز نے اس کے خوف کو بڑی حد تک منتشر کردیا ۔ گھبراو نہیں میرے بیٹے تم یہاں اب محفوظ ہو ۔۔
پناہ کی آواز نے اسے ایک مسحورکن مسرت سے ہمکنار کیا ہی تھا کہ اسکی نظر آواز کے بھاری بھرکم بوٹوں پر پڑی جو کالے تھے.