تمنا جو اتنی مچلنے لگی ہے

تمنا جو اتنی مچلنے لگی ہے
مرے رنگ میں کیا وہ ڈھلنے لگی ہے


مری رخصتی اور انگڑائی اس کی
ارادہ مرا وہ بدلنے لگی ہے


ہماری عبادت کو آنا ترا کیا
طبیعت اچانک سنبھلنے لگی ہے


ترے لب پہ رخسار پہ لکھ رہا ہوں
قلم خود بخود سرخ چلنے لگی ہے


لپٹ کر ترے چھوڑتے ہی بدن سے
مری روح طاہرؔ نکلنے لگی ہے