تمام وحشتیں میری بڑھا کے چھوڑ گیا
تمام وحشتیں میری بڑھا کے چھوڑ گیا
وہ مجھ کو صحرا میں دریا دکھا کے چھوڑ گیا
ہوا بھی پردہ ہلائے تو ہو گماں اس کا
وہ جاتے جاتے یوں پردہ ہلا کے چھوڑ گیا
کوئی بتائے کہ کیسے گزارا ہو اپنا
ہمیں جہاں میں وہ اچھا بنا کے چھوڑ گیا
وفا پرست کہوں یا کہ بے وفا اس کو
عجیب شخص تھا وعدہ نبھا کے چھوڑ گیا
کل ایک خواب جو آیا تھا میری آنکھوں میں
تمہارے شہر کا نقشہ بنا کے چھوڑ گیا