تمام رشتے اسی شاخ بے ثمر سے ہیں

تمام رشتے اسی شاخ بے ثمر سے ہیں
تلاش انہی کو ہے گھر کی جو نکلے گھر سے ہیں


شناخت کی یہ کہانی بس ایک نسل کی ہے
پھر اس کے بعد فسانے ادھر ادھر سے ہیں


ابھی خبر نہیں نو واردان ہجرت کو
کہاں سے اٹھے ہیں بادل کہاں پہ برسے ہیں


قدم اٹھے نہیں معلوم منزلوں کی طرف
مگر اداس ہم اندیشۂ سفر سے ہیں


بس آنکھ کھلتے ہی تعبیر خواب مل جائے
یہ کس طرح کے تقاضے ہمیں سحر سے ہیں


نگاہ رکھتے ہیں سیارگاں کی نبض پہ ہم
اور اپنے چاروں طرف کتنے بے خبر سے ہیں