تلخ لہجہ جس کی فطرت ہے اسی ناری کا بوجھ

تلخ لہجہ جس کی فطرت ہے اسی ناری کا بوجھ
میں اٹھائے پھر رہا ہوں زیست بیچاری کا بوجھ


کٹگھرے میں عدل کی خاطر کھڑا ہے بے قصور
ڈھو رہا ہے ایک بے بس کب سے لاچاری کا بوجھ


اس لیے پل بھر کو میں سوتا نہیں آرام سے
لے کے سوتا ہوں ہمیشہ سر پہ بیداری کا بوجھ


زندگی کیسے گزاروں میں تو اک مزدور ہوں
اک طرف بیٹی کی شادی اس پہ بیماری کا بوجھ


اس کو آنکھوں نے نہیں دیکھا تو یوں لگتا رہا
جیسے آنکھوں کے سروں پر ہو جفا کاری کا بوجھ


اور مت رکھو مرے کاندھوں پہ ذمہ داریاں
پہلے ہی کچھ کم نہیں ہے روٹی ترکاری کا بوجھ


تجربے کے ساتھ کیجئے مصرع ثانی قبول
سب سے بھاری ہے تو ہے دنیا میں خودداری کا بوجھ


بار فن ڈھونے کی طاقت دے وگرنہ اے کریم
ناتواں کیسے اٹھا سکتا ہے فن کاری کا بوجھ


بادشاہ وقت ہیں بے فکر اور طاہر سعودؔ
نوجواں دل پر لیے پھرتے ہیں بیکاری کا بوجھ